اسلام آباد:(دنیا نیوز) سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجازنے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی معیشت کا گلہ گھونٹ رہی ہے۔
وفاقی دارالحکومت سے جاری اپنے ایک بیان میں گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ 30 جولائی کو سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اجلاس ہو رہا ہے، پاکستان میں شرح سود 11 فیصد پر ہے، پاکستان میں شرح سود 11 فیصد ، انڈیا میں 5.5 اور چین میں 3 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے ٹیکس وصولیوں میں 18 فیصد اضافے کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے، مانیٹری پالیسی ٹیکس ادا کرنے والے کاروباری سرگرمیوں کو دبا رہی ہے، شرح سود کو فوری طور پر 9 فیصد پر لایا جائے، دسمبر 2025 تک شرح سود کو 6 فیصد پر لانا ہوگا۔
سابق نگران وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹس میں با صلاحیت ہے ، مانیٹری پالیسی معاشی ترقی کا راستہ روک رہی ہے، 30 جولائی کو فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو مسابقتی سپورٹ ملتی ہے یا پھر نہیں، پاکستان میں کاروباری لاگت علاقائی ممالک کے مقابلے میں دوگنی ہے۔
گوہر اعجاز نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کا نرخ 12 سے 14 سینٹ فی یونٹ ہے، علاقائی ممالک میں بجلی 5 سے 9 سینٹ فی یونٹ میں دستیاب ہے، پاکستان میں بے روزگاری 22 فیصد ، انڈیا میں 4.2 اور چین میں 4.5 فیصد ہے، صنعتکار مانیٹری پالیسی کمیٹی سے کاروباری سرگرمیوں کو ترجیح دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی سے کاروباری لاگت کم ہو گی، کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور روزگار ملے گا، شرح سود میں کمی سے 3 ٹریلین روپے کی بچت ہوگی، معاشی پالیسی میں غیر ضروری درآمدات کو روکنے کے کئی طریقے ہیں۔
سابق نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ 2022 کا بوم اینڈ بسٹ سائیکل کم شرح سود کی وجہ سے نہیں آیا، 2022 میں 3 ارب ڈالرز کی ویکسین درآمد کی گئی، 2022 میں یوکرین جنگ کی وجہ سے 12 ارب ڈالرز تیل و گیس کی درآمد پر اضافی خرچ کیے گئے۔
گوہر اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ ان فیکٹرز کا ملکی شرح سود سے کوئی تعلق نہیں تھا، سالانہ 5 فیصد مہنگائی کے مقابلے میں 11 فیصد شرح سود نا قابل فہم ہے۔