کراچی: (روزنامہ دنیا) فٹنس میں بہتری کے باوجود سرفراز احمد کی قیادت پر بدستور سوالیہ نشان برقرار ہے کیونکہ ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق نے بھی اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ عالمی کپ میں مایوس کن کارکردگی کے بعد سرفرازکی قائدانہ صلاحیتوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے حالانکہ نئے سیزن سے قبل انہوں نے اپنی جسمانی حالت کو کافی بہتر بنایا ہے۔ بورڈ ذرائع کے مطابق سرفراز احمد کو ٹی ٹونٹی میچوں تک محدود کئے جانے کا قوی امکان ہے، ٹیسٹ فارمیٹ میں اوسط درجے کے نتائج کے بعد اظہر علی کو کپتانی کیلئے موزوں سمجھا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی کرکٹ کی تینوں فارمیٹس میں قیادت کرنیوالے سرفراز کی کپتانی پر خدشات کے بادل بدستور چھائے ہوئے ہیں، اگرچہ سرفراز احمد نے پری سیزن کیمپ میں اپنی فٹنس سے سب کو متاثر کر دیا اور ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی جسمانی حالت میں بہتری لانے کی غرض سے 7 سے 9 کلو وزن کم کیا ہے۔ رواں برس جون میں بھی یہ خبریں زیر گردش رہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کی اہم ترین وجہ ٹیسٹ فارمیٹ میں ان کی اوسط درجے کی کارکردگی تھی کیونکہ اپنے کیریئر کے 13 ٹیسٹ میچوں میں وہ قومی ٹیم کو صرف چار کامیابیوں سے ہمکنار کرا سکے جبکہ آٹھ مرتبہ انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا جس کے بعد طویل فارمیٹ کی کپتانی کیلئے اظہرعلی کو ممکنہ مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے تاہم اس بارے میں فیصلہ نئی ٹیم انتظامیہ کو کرنا ہے۔
اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سرفراز احمد کی قیادت کے علاوہ ذاتی کارکردگی پر بھی ماضی قریب میں مصباح الحق اور نئے باؤلنگ کوچ وقار یونس عدم اطمینان ظاہر کر چکے ہیں اور ان کا تینوں فارمیٹس میں حسب سابق کپتانی کرنا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ اگرچہ 32 سالہ سرفراز احمد کا ٹی ٹونٹی میچوں میں بطور کپتان ریکارڈ مثالی رہا ہے جنہوں نے پاکستانی ٹی ٹونٹی ٹیم کو لگاتار کامیابیوں کی بدولت عالمی نمبر ایک کی پوزیشن پر فائز کرایا لیکن عالمی کپ کے بعد ان کی ون ڈے کپتانی بھی زیر غور آگئی ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ پچاس اوورز کی کرکٹ میں بابر اعظم کو کپتانی دے کر سرفراز احمد کو مختصر فارمیٹ تک محدود کیا جا سکتا ہے۔
پری سیزن کیمپ کے دوران سرفراز احمد کی مجموعی فٹنس کو سراہنے والے مصباح الحق سے جب سرفراز احمد کی کپتانی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ قیادت کے حوالے سے فی الحال سوچ و بچار ہو رہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں دیگر شعبوں کی طرح قومی ٹیم کی قیادت میں تبدیلی بھی متوقع ہے۔