لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئر مین لیفٹیننٹ جنرل (ر) توقیر ضیاء کا کہنا ہے کہ سلیم ملک فرسٹریشن میں ایسا کر رہا ہے وہ نوکری پی سی بی میں نہیں چاہتا تو اسے اکیڈمی بنانے کی اجازت دے دیں۔ ہم نے جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ دبا کر نہیں رکھی۔ جسٹس قیوم کمیشن پاکستان کرکٹ بورڈ کی درخواست پر 1998 میں حکومت نے بنایا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) توقیر ضیاء کا کہنا ہے کہ میچ فکسنگ کے معاملے میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کاسلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ یہ صرف بیان بیازی ہے، اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائے۔
سابق چئیرمین نے کہا کہ گزشتہ چند روز میں پی سی بی کے سابق عہدیداروں اور سابق کرکٹرز کی باتیں سنی ہیں، کہا جاتا ہے کہ پاکستان ٹیم نے کچھ میچز جان بوجھ کر ہارے ہیں لیکن کوئی ثبوت نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ فکسنگ کی باتیں کرنی ہیں تو اس کے لیے ثبوت لائیں، اگر ثبوت نہیں ہیں تو پھر پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کریں، پاکستان اور پاکستان کرکٹ کو بدنام نہ کریں، اگر بول کر کسی کو نوکری چاہیے تو ہمیں بتائیں ہم اس حوالے سے کوشش کر لیتے ہیں۔
سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ میچ فکسنگ میں سلیم ملک کو قیوم کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑا، اِس وقت جو وہ کر رہے ہیں وہ فرسٹریشن میں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سلیم ملک کہتے ہیں کہ مجھے پی سی بی میں نوکری نہیں چاہیے، وہ جاب کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہے، اگر ایسا ہے تو پھر معاملے کو ختم کریں اور سلیم ملک کو اکیڈمی وغیرہ کھولنے کی اجازت دیں۔
سابق چیئرمین کا کہنا تھا کہ میں پوچھتا ہوں کہ اس وقت سلیم ملک کیوں لڑائی کر رہے ہیں؟ 2008 میں جب عدالت نے انہیں بری کردیا تھا تو انہوں نے اپنے حق کے لیے تب لڑائی شروع کیوں نہیں کی؟ انہیں اپنے حق کے لیے پی سی بی کے پاس جانا چاہیے تھا اور جو بھی چیزیں پوری کرنا تھیں وہ کرتے اور وہاں جنگ لڑتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب اگر کوئی جنگ کرنا چاہتے ہیں تو قرآن پرحلف اٹھائیں اور سب کو سامنے لائیں اور نیا پنڈورا باکس کھول دیں لیکن اس وقت میرے خیال میں سلیم ملک غلط کر رہے ہیں۔
توقیر ضیاء کا کہنا ہے کہ سلیم ملک کا اِس وقت مسئلہ جو مجھے نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ قیوم کمیشن کی رپورٹ کے سب کردار کسی نہ کسی طرح نوکریاں کرکے کما چکے ہیں اور کچھ اب بھی پی سی بی اور کرکٹ سے وابستہ ہیں لہٰذا میں کہاں ہوں؟ مسئلہ صرف اس ’میں‘ کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔
جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے سابق چئیرمین کا کہنا تھا کہ انہوں نے قیوم کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے تاخیر نہیں کی بلکہ اس پر من و عن عمل کیا، رپورٹ کسی نے درست طور پر پڑھی ہی نہیں، لوگ جیسا کہہ رہے ہیں ویسا رپورٹ میں نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو رپورٹ سمجھ کر پڑھناہوگی اور پھر اس پر تبصرہ کرنا ہوگا کہ اس پر عمل ہوا ہے کہ نہیں؟ میں کبھی وسیم اکرم کو دوبارہ کپتان بنانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ رپورٹ میں واضح طور پر لکھا ہوا کہ کوئی اہم عہدہ نہیں دینا۔
ان کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم کو کپتانی سونپنے کے حوالےسے آئی سی سی سے بھی پوچھا تھا اور آئی سی سی نے بھی منع کر دیا تھا جبکہ میرے ہوتے ہوئے مشتاق احمد کو بھی کوئی نوکری نہیں ملی تھی۔
خیال رہے کہ یہ معاملہ ایسے وقت پر شروع ہوا ہے جب سابق کپتان سلیم ملک نے فکسنگ کے حوالے سے سارے راز بتانے کی حامی بھرتے ہوئے 19 سال بعد قوم سے معافی مانگی تھی۔
اس سے قبل انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ محمد عامر اور شرجیل خان کی طرح انھیں بھی کرکٹ میں واپسی کا موقع دیا جائے۔ سلیم ملک کے اس بیان کے بعد سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں ماضی میں ہونے والی بدعنوانیوں سے متعلق روز نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔