باپ بیٹا ٹیسٹ کرکٹرز کی 10جوڑیاں

Published On 20 September,2020 06:51 pm

لاہور: (دنیا نیوز) کرکٹ کی تاریخ میں بہت سے ایسے باپ بیٹا کھلاڑی ملتے ہیں جنہوں نے الگ الگ اس کھیل کے عروج میں اپنا کردار ادا کیا۔

کچھ باپ بیٹا کرکٹ کے میدان میں اتنے زیادہ کامیاب نہیں رہے، کچھ باپ بیٹا دونوں نے اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا اور کچھ باپ بیٹے کی جوڑی میں سے باپ نے بہت نام کمایا لیکن بیٹا وہ کچھ کرنے میں ناکام رہا جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔

بیٹے کا نام کرکٹ کی تاریخ کے صفحات میں درج ہو گیا۔ ہم ذیل میں اپنے قارئین کو ان دس مشہور باپ بیٹا کرکٹرز کے بارے میں بتائیں گے جنہوں نے اس کھیل کو رفعتیں بخشیں اور لازوال شہرت حاصل کی۔

حنیف محمد، شعیب محمد

حنیف محمد عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی تھے۔ وہ پاکستانی ٹیم کے افتتاحی بلے باز تھے اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے 1958 میں برج ٹائون(ویسٹ انڈیز) میں 337 رنز کی اننگزکھیلی اور پاکستان ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ حنیف محمد پاکستان ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ انہوں نے پاکستان کی طرف سے پہلے ٹیسٹ میچ میں بھی حصہ لیا۔ یہ میچ 1952 میں دہلی میں بھارت کے خلاف کھیلا گیا تھا۔انہوں نے 55 ٹیسٹ میچوں میں 3915 رنز بنائے اور ان کی اوسط 44 رنز رہی ۔ انہوں نے 12 سنچریاں اور 15 نصف سنچریاں بنائیں۔ ان کے بھائیوں مشتاق محمد اور صادق محمد نے بھی بڑا نام کمایا۔ ان کے بیٹے شعیب محمد بھی بڑے ذہین کھلاڑی تھے۔ وہ بھی افتتاحی بلے باز تھے اور آف بریک بائولنگ بھی کرتے تھے۔ انہوں نے 45 ٹیسٹ میچوں میں حصہ لیا۔ اور 44.34 رنز کی اوسط سے 2705 رنز بنائے۔ شعیب محمد نے سات سنچریاں اور 13 نصف سنچریاں اپنے نام کیں۔ ایک ٹیسٹ میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور203 رنز ناٹ آئوٹ رہا۔ جبکہ ایک روزہ میچوں میں بھی انہوں نے ایک سنچری اور آٹھ نصف سنچریاں بنائیں۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوںمیں پانچ اور ایک روزہ میچوں میں 20 وکٹیں حاصل کیں۔

لالہ امر ناتھ ، مہندر امرناتھ

لالہ امرناتھ آزادی کے بعد بھارتی ٹیم کے پہلے کپتان تھے۔ انہوں نے بھارت کی طرف سے پہلی ٹیسٹ سنچری بھی بنائی۔ 1952 میں بھارت نے جو پہلی سیریز پاکستان کے خلاف کھیلی، اس میں بھارت کے کپتان بھی تھے۔ انہوں نے24 ٹیسٹ میچوں میں 24.4 رنز کی اوسط سے 878 رنز بنائے۔ انہوں نے ایک سنچری اور 4 نصف سنچریاں بنائیں۔ ان کے بیٹے مہندر امرناتھ اور سریندر امر ناتھ بھی ٹیسٹ کرکٹر تھے۔ ان میں سے مہندر امر ناتھ نے خاصی شہرت حاصل کی۔مہندر امرناتھ بائولنگ بھی کرتے تھے۔ انہوں نے 69 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 42.5 رنز کی اوسط سے 4378 رنز بنائے۔ انہوں نے 11سنچریاں اور 24 نصف سنچریاں بنائیں۔ مہندر امرناتھ نے 85 ایک روزہ میچوں میں 30.5 رنز کی اوسط سے 1924 رنز بنائے۔ انہوں نے دو سنچریاں اور 13نصف سنچریاں اپنے نام کیں۔ انہوں نے 1983 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنی شاندار آل رائونڈکارکردگی کی بدولت بھارت کو یہ کپ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کائولن کائوڈرے، کرس کائوڈرے

انگلینڈ کے سابق کپتان کائولن کائوڈرے بڑے دلکش بلے باز تھے وہ پہلے بلے باز تھے جنہوں نے 100 میچز کھیلے۔ کائوڈرے نے 114 ٹیسٹ میچز میں44.1 رنز کی اوسط سے 7624 رنز بنائے ۔ انہوں نے 22 سنچریاں اور 38 نصف سنچریاں بنائیں۔ ایک اننگز میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 182رنز تھا۔ انہوں نے صرف ایک ون ڈے میچ کھیلا۔ انہوں نے 1954 سے 1975 تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلی۔ 1959 سے 1969 تک وہ انگلینڈ کے کپتان رہے۔ جب وہ ریٹائرڈ ہوئے تو ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ سکور ان کا تھا۔ ان کے بیٹے کرس کائوڈرے کنیٹ، گلیمورگن انگلینڈ کی طرف سے آل رائونڈر کی حیثیت سے کھیلتے رہے۔ انہوں نے چھ ٹیسٹ کھیلے اور 101 رنز بنائے۔ ایک روزہ میچوں میں ان کا سکور 51 رہا۔

کرس براڈ، سٹیورٹ براڈ

ایک محاورہ ہے کہ ’’کٹورے پہ کٹورا، بیٹا باپ سے گورا‘‘ لیکن یہاں دونوں باپ بیٹا گورے ہیں اور ان کا تعلق انگلینڈ سے ہے۔ سٹیورٹ براڈ نے اپنے باپ کرس براڈ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کرس براڈ انگلینڈ کے افتتاحی بلے باز رہے ہیں۔ اس وقت وہ کرکٹ بورڈ کے ملازم کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ افتتاحی بلے باز کی حیثیت سے انہوں نے 26 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں انہوں نے چھ سنچریاں بنائیں۔ اس طرح انہوں نے 34 ایک روزہ میچوں میں ایک سنچری اور 11 نصف سنچریاں اپنے نام کیں۔ وہ ایک دلکش سٹروک پلیئر تھے لیکن ان کے آل رائونڈر بیٹے سٹیورٹ براڈ نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ سٹیورٹ براڈ نے انگلینڈ کی طرف سے 143 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں اور انہوں نے 27 رنز کی اوسط سے 514 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔ اس طرح 121 ایک روزہ میچز میں سٹیورٹ براڈ نے 30.1 اوسط سے 178 وکٹیں اپنے نام کیں۔ انہوں 56 ٹی ٹوئنٹی میچز میں بھی حصہ لیا اور 22.9 رنز کی اوسط سے 65 وکٹیں حاصل کی ہیں۔اس طرح بلے بازی میں بھی انہوں نے کئی اچھی اننگز کھیلیں۔انہوں نے ٹیسٹ میچز میں ایک سنچری اور 13 نصف سنچریاں بنائیں۔ تین بار ایک میچ میں 10 وکٹیں اپنے نام کی ہیں۔ وہ اب بھی انگلینڈ ٹیم کا حصہ ہیں۔

نواب آف پٹودی سینئر، منصور علی خان پٹودی

نواب افتخار علی خان پٹودی سینئر نے چھ ٹیسٹ اور 127 فسٹ کلاس میچز کھیلے ۔ انہوں 19.90 رنز کی اوسط سے199 رنز بنائے اور ایک سنچری بنائی۔ فرسٹ کلاس میچز میں ان کی سنچریوں کی تعداد127 ہے اور انہوں نے 48.61 کی اوسط سے رنز بنائے۔ ٹیسٹ میچز میں انہوں نے ایک وکٹ حاصل کی۔ منصور علی خان نے اپنے باپ کی نسبت کافی زیادہ کرکٹ کھیلی ۔ صرف21 سال کی عمر میں وہ بھارتی ٹیم کے کپتان بن گئے تھے۔ ایک حادثے میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی لیکن وہ ایک آنکھ سے ہی کرکٹ کھیلتے رہے ۔انہوں نے 46 ٹیسٹ اور 310 میچز کھیلے۔ انہوں نے 34.19 رنز کی اوسط سے 2793 رنز بنائے،چھ سنچریاںاور 17 نصف سنچریاں بنائیں۔ ایک اننگز میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور203 رنز ناٹ آئوٹ رہا۔ انہوں نے ایک ٹیسٹ وکٹ بھی حاصل کی۔نواب منصور علی خان کا شمار بھارت کے بہترین کپتانوں میں کیا جاتا ہے۔ منصور علی خان پٹودی کو ایک اور اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے وقت کے سب سے کم عمر ٹیسٹ کپتان تھے۔ مئی 2004 میں ان کا یہ ریکارڈ زمبابوے کے ٹینڈا سیبو نے توڑا۔1968 میں انہیں وژڈن کرکٹر آف دی ایئر قراردیا گیا۔

لانس کینز، کرس کینز

نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے یہ باپ بیٹا اپنے وقت کے بڑے اچھے کرکٹر تھے۔ لانس کینز آل رائونڈر تھے۔ وہ اس وجہ سے بھی مشہور تھے کہ وہ کھیلنے کیلئے ایک غیر معمولی بلے کا استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے 130 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں۔ جبکہ ایک روزہ میچز میں ان کی وکٹوں کی تعداد 89 تھی۔انہوں نے 1983 میں ہیڈنگلے میں کھیلتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف 10 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ نیوزی لینڈ کی انگلینڈ میں پہلی فتح تھی۔ لانس کینز نے 43 ٹیسٹ میچز اور 78 ایک روزہ میچوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے ٹیسٹ میچز میں928 رنز جبکہ ایک روزہ میچز میں987 رنز بنائے۔ انہوں نے ٹیسٹ اور ایک روزہ میچز میں دو دو نصف سنچریاں اپنے نام کیں۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ1985 میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلا۔

اُن کے بیٹے کرس کینزنے باپ کی نسبت زیادہ شہرت حاصل کی ۔ وہ بھی آل رائونڈر تھے۔ انہوں نے 62 ٹیسٹ میچز میں 33.5 رنز کی اوسط سے 3320 رنز بنائے۔ ان میں پانچ سنچریاں اور22 نصف سنچریاں شامل ہیں۔215 ایک روزہ میچز میں انہوں نے 29.5 رنز کی اوسط سے 4950 رنز بنائے۔ ایک روزہ میچز میں انہوں نے 4 سنچریاں اور 26 نصف سنچریاں بنائیں کرس کینزنے 29.40 رنز کی اوسط سے 218 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک روزہ میچوں میں انہوں نے 32.80 رنز کی اوسط سے 201 وکٹیں اپنے نام کیں۔ انہوں نے 13 بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل کیا۔ جبکہ ایک بار پورے میچ میں 10 وکٹیں اپنے نام کیں۔ ٹیسٹ میں ان کی بہترین بائولنگ27 رنز کے عوض سات وکٹیں تھیں۔ کینز جارحانہ انداز میں بلے بازی کرتے تھے ایک دفعہ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے جس بائولر کو کھیلتے ہوئے سب سے زیادہ مشکل کا سامنا کیا وہ وسیم اکرم تھے۔2004 میں کرس کینز نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔

پیٹر پولاک، شان پولاک

جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ان باپ بیٹا کرکٹر نے بھی بڑے کمالات دکھائے۔ وہ دائیں ہاتھ سے بلے بازی اور دائیں ہاتھ سے تیز رفتار بائولنگ کرتے تھے۔ انہوں نے 28 ٹیسٹ میچز اور 127 فرسٹ کلاس میچز کھیلے۔ انہوں نے 21.67 رنز کی اوسط سے 607 رنز بنائے۔ ٹیسٹ میچز میں انہوں نے دو نصف سنچریاں بھی بنائیں پیٹر پولاک نے 24.18 رنز کی اوسط سے 116 وکٹیں اپنے نام کیں۔ انہوں نے 9 مرتبہ ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ جبکہ ایک مرتبہ پورے ٹیسٹ میچ میں 10 وکٹیں اپنے نام کیں۔ ان کی بہترین بائولنگ 36 رنز کے عوض چھ وکٹیں تھیں باپ کی طرح انہوںنے بھی آل رائونڈر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا۔ شان پولاک کو زیادہ کھیلنے کا موقع ملا۔ ایلن ڈونلڈ کے ساتھ انکی جوڑی بہت مشہور ہوئی۔ آجکل وہ کرکٹ کے تبصرہ نگار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

شان پولاک نے 108 ٹیسٹ میچز میں 32.3 رنز کی اوسط سے 3781 رنز بنائے انہوں دو سنچریاں اور 16نصف سنچریاں بنائیں۔ 303 ایک روزہ میچوں میں شان پولاک نے 26.4 رنز کی اوسط سے 3519 رنز بنائے۔ وہ بائولنگ آل رائونڈر تھے۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 423 وکٹیں اپنے نام کیںاور ان کی اوط 23.11رنز رہی۔ جبکہ ایک روزہ میچز میں انہوں نے 24.50 رنز کی اوسط سے 393 وکٹیں حاصل کیں۔شان پولاک کی شاندار بائولنگ کی بہترین مثال یہ ہے کہ انہوں نے ٹیسٹ میچز میں 16 مرتبہ ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک روزہ میچز میں یہ اعزاز انہوں نے پانچ مرتبہ اپنے نام کیا۔ان کی بہترین بائولنگ ایک ٹیسٹ اننگز میں 87 رنز کے عوض سات وکٹیں ہیں۔

جارج ہیڈلی ،اون ہیڈلی

ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے جارج ہیڈلی بڑے ہی زبردست بلے باز تھے وہ جس زمانے میں کرکٹ کھیلتے تھے اس وقت نسبتاََ کم یہ کھیل کھیلا جاتا تھا۔ 30 مئی 1909 کو پیدا ہونے والے جار ہیڈلی نے صرف 22 ٹیسٹ میچز کھیلے اور زیادہ تر یہ میچز دوسری جنگ عظیم سے پہلے کھیلے گئے۔ جارج ہیڈ لی کو کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین بلے بازوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 22 ٹیسٹ میچز میں 60.8 رنز کی اوسط سے 2190 رنز بنائے۔ ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ سکور 270 رنز ناٹ آئوٹ رہا۔ انہوں نے 10 سنچریاں اور پانچ نصف سنچریاں بنائیں۔ان کے بیٹے اون ہیڈلی نے بھی کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا انہوں نے کم کرکٹ کھیلی لیکن تاریخ میں نام لکھوایا۔ انہوں صرف دو ٹیسٹ میچز کھیلے اور 1973 میں ایک ون ڈے میچ کھیلا۔ دو ٹیسٹ میچوں میں اون ہیڈلی نے 62 رنز بنائے وہ بائیں ہاتھ سے بلے بازی جبکہ دائیں ہاتھ سے بائولنگ کرتے تھے۔

جیف جونز، سمن جونز

انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے جیف جونز دائیں ہاتھ سے بلے بازی جبکہ بائیں ہاتھ سے بائولنگ کرتے تھے۔ وہ صرف چار سال کرکٹ کھیلے۔ انہوں نے 15 ٹیسٹ میچز میں اور 198 فسٹ کلاس میچز میں حصہ لیا۔ بلے بازی میں تو وہ کوئی کارنامہ سرانجام نہ دے سکے لیکن بائولنگ میں انہوں نے قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے 44 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں۔ 1965-66 کی ایشیز سیریز میں انہوں نے انگلینڈ کے طرف سے سب سے زیادہ وکٹیں لیں۔

ان کے بیٹے سمن جونز نے بھی کرکٹ کھیلی۔ وہ خاصے عرصے تک کائونٹی کرکٹ کھیلتے رہے۔ سمن جونز نے 18 ٹیسٹ میچز میں حصہ لیا اور 205 رنز بنائے۔ ایک اننگز میں ان کا زیادہ سے زیادہ سکور 44 رہا۔ انہوں نے 59 ٹیسٹ وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی بہترین بائولنگ 53 رنز کے عوض 6 وکٹیں ہیں۔ ایشیز سیریز میں بھی ان کی بہترین بائولنگ متاثر کن رہی۔ 2002 اور2005 میں لارڈز کرکٹ گرائونڈ میں بھارت اور آسٹریلیاکے خلاف انہوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ کائونٹی کرکٹ میں بھی انہوں نے بہت متاثر کن کھیل پیش کیا۔

سنیل گواسکر، روہن گواسکر

بھارت سے تعلق رکھنے والے اس باپ بیٹے کا نام بھی کرکٹ کی تاریخ میں درج ہو چکا ہے ۔ سنیل گواسکر نے تو بہت نام کمایا لیکن بیٹا باپ کا نام روشن کرنے میں ناکام رہا۔ گواسکر افتتاحی بلے باز تھے۔ انہوں نے 125 ٹیسٹ میچوں میں 51.12 رنز کی اوسط سے 10122 رنز بنائیں۔ انہوں نے 108 ایک روزہ میچز میں 35013 رنز کی اوسط سے 3092 رنز بنائے۔ سنیل گواسکر نے ایک ٹیسٹ وکٹ بھی حاصل کی اور وہ وکٹ ظہیر عباس کی تھی۔ ایک روزہ میچز میں انہوں نے ایک سنچری اور 27 نصف سنچریاں بنائیں۔ ان کے بیٹے روہن گواسکر بائیں ہاتھ سے بلے بازی اور بائولنگ کرتے تھے ۔ وہ مڈل آرڈر بلے باز تھے۔ وہ کوئی ٹیسٹ میچز نہیں کھیلے البتہ انہوں نے 11 ایک روزہ میچز میں حصہ لیا۔ انہوں نے صرف 151 رنز بنائے اور ان کی اوسط18.87 رنز رہی۔ ان کا ایک اننگز میں زیادہ سے زیادہ 54رنز سکور تھا۔ باپ نے جتنی شہرت حاصل کی۔ بیٹے نے اتنا ہی مایوس کیا۔

تحریر: عبدالحفیظ ظفر