لاہور: (ویب ڈیسک) قومی ٹیم کے سینئر آل راؤنڈر شعیب ملک نے کہا ہے کہ مجھے دوبارہ پاکستان کے لئے کھیلنے کا موقع نہ ملا تو کوئی افسوس نہیں ہوگا۔
ایک انٹرویو کے دوران قومی ٹیم کے سینئر آل راؤنڈر کا کہنا تھا کہ اگر کوئی پلیئر سکواڈ میں شامل نہ ہو تو اور وہ کہے کہ میں افسردہ نہیں ہوں تو وہ پلیئر جھوٹ بول رہا ہے، ہمارا سسٹم پسند اور نا پسند پر مبنی ہے، اسی وجہ سے کرکٹ سمیت دیگر شعبوں میں ہم دنیا سے پیچھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگ یہ سوچتے تھے کہ عمران خان اقتدار میں آئیں گے تو مسائل فوری حل ہو جائیں گے، لیکن میرے نزدیک بہت سارے مسائل ہیں جو سپورٹس کے علاوہ حل ہونا ہیں۔
سینئر آل راؤنڈر نے کہا کہ بابر اعظم میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے، انہوں نے میرے ماتحت بہت کرکٹ کھیلی ہے، لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ قومی ٹیم کی سلیکشن میں کپتان کا کوئی کردار نہیں۔ بہت سارے پلیئرز کو بابر اعظم ٹیم میں کھلانا چاہتے ہیں لیکن ان کی مانی نہیں جا رہی، کپتان امام الحق، حارث سہیل، عماد وسیم، محمد عامر، وہاب ریاض کو ٹیم میں کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کی سنی نہیں جاتی۔ میں نے ایک بار انگلش پلیئرز سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ پلینگ الیون میں کپتان مورگن کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
شعیب ملک نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں حیران ہوں کہ محمد عامر نے اس عمر میں کیوں انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ ہر کوئی اپنا فیصلہ مرضی سے کر سکتا ہے۔ عماد وسیم نوجوان کھلاڑی ہے اسے ٹیسٹ سکواڈ میں ہونا چاہیے، وہ ٹی ٹونٹی اور ون ڈے مسلسل کھیل چکے ہیں۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ میں کسی کے خلاف نہیں ہوں، میں نے بیس سے زائد ملک کیلئے کرکٹ کھیلی ہے، میں کچھ رائے دینا چاہتا ہوں ہمیں وائٹ بال کوچ درکار ہے جو عالمی تجربہ رکھتا ہوں، ریڈ بال کا کوچ الگ ہونا چاہیے کیونکہ کچھ کوچ کھلاڑی کی نفسیاتی کو سمجھتے ہیں، کچھ نہیں، پلیئرز کی کارکردگی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے، کوچ ہی پلیئرز کا مورال بلند کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے مصباح الحق کیساتھ اچھے تعلقات ہیں، ان کیخلاف نہیں ہوں، تینوں فارمیٹ کا کوچ بنانے پر میں نے ان کی حمایت کی تھی، انہیں کوچنگ کیلئے مزید وقت درکار ہے ۔ کرکٹر ہونے کی حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں مجھے دوبارہ پاکستان کے لئے کھیلنے کے لئے نہ کہا گیا تو کوئی افسوس نہیں ہوگا۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نوجوان پلیئر کو ایک سیزن کی بنیاد پر ٹیم میں نہیں آنا چاہیے، پی ایس ایل ایک اچھا پلیٹ فارم ہے، یہاں پر نوجوان کو زیادہ سے زیادہ مواقع دے کر ہی ٹیم میں لایا جائے۔ اگر کسی فاسٹ باؤلر کو اس لیے سلیکٹ کیا جاتا ہے کہ وہ 140 سے زائد کی رفتار سے گیند کر سکتا ہے اور ٹی ٹونٹی میں محض چار اوور کرنا ہوتے ہیں لیکن اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ پانچویں اوور میں وہ باؤلنگ کیسے کرے گا۔
انٹرویو کے دوران ایک اور سوال کے جواب میں شعیب ملک نے کہا کہ آئندہ تین سال بہت اہم ہیں۔ دو ٹی ٹونٹی ورلڈکپ آ رہے ہیں جس کے بعد 2023ء کا ون ڈے ورلڈکپ آنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ بابر اعظم کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا جائے اور اختیارات دیئے جائیں۔
مڈل آرڈر سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں محمد حفیظ کو ون ڈے سکواڈ میں ہونا چاہیے، پلیئر تجربہ کار بھی ہے، 2023ء کے ورلڈکپ تک ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
وقار یونس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر میں ذاتی رائے دوں تو بہت سے لوگ ناراض ہوں گے، لیکن وہ ماضی میں اچھے باؤلنگ کوچ نہیں تھے تاہم اب ان کی کارکردگی بہت بہتر ہے۔