لاہور: (محمد احمد رضا) پاکستان سپر لیگ سیون کے بڑے ایونٹ کا کرکٹ میلہ بڑے شہر میں سجا ہوا ہے، کرکٹ ستاروں کی جگمگ جگمگ نے روشنیوں کو دوبالا کیا ہوا ہے ، اس میں انفرادی کارکردگی کے ساتھ ساتھ نتائج بھی توجہ کے مرکز بنے ہوئے ہیں ۔ پہلے مرحلے اور حصے کے یہ مقابلے سات فروری تک جاری رہیں گے۔ انتہائی مصروفیات کے باوجود پرستاروں کی آمد اور خاص طور پر کورونا ایس او پیز کے باعث بارہ سال سے کم عمر بچوں کی اسٹیڈیم میں انٹری بند ہونے پر سب کا مایوسی کا شکار ہونا اس ایونٹ کی کامیابی اور بہترین پسندیدگی کی علامت ہے۔
4 فروری تک ہونے والے لیگ سیون کے گیارہ میچز میں ہائی اسکورنگ مقابلوں نے تو گویا گرویدہ ہی کر دیا۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف 229رنز کا مجموعہ جوڑ ا جو رواں سیزن کا پہلا اور مجموعی طور پر لیگ کا چوتھا بڑا ٹوٹل ثابت ہوا۔ اس میں لگنے والے چھکے چوکوں نے دیکھنے والوں کو خوب محظوظ کیا۔ اعصاب شکن مقابلے اور ان کے نتائج پوائنٹس ٹیبل کو تیزی سے بدل رہے ہیں ، دفاعی چیمپئن اور ناقابل شکست ملتان سلطانز 8پوائنٹس کے ساتھ ٹاپ پوزیشن پر براجمان ہے جبکہ اسلام آباد یونائیٹڈ نے 4پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر آنے کا اعزا زحاصل کر لیا ۔ لاہور قلندرز کے بھی 4ہی پوائنٹس ہیں لیکن رن اوسط کی بنیاد پر قلندرز اب تیسرے نمبر پر ہیں ۔ اسی طرح پشاور زلمی بھی اسی اسکور کے ساتھ چوتھی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے واحد کامیابی حاصل کی ، 2پوائنٹس سے انہیں دوسری پوزیشن ملی ہوئی ہے۔ اور آخر میں بلکہ آخر پر میزبان ٹیم کراچی کنگز ہیں جو چار کے چار میچوں میں لگاتار ناکامیوں کا شکار ہیں۔
پلیئرز کی انفرادی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو جمعہ تک ہونے والے میچز تک اکلوتے سنچری میکر فخر زمان 286رنز کے ساتھ سرفہرست ہیں ۔ شان مسعود 240رنز بنا کر دوسرے نمبر کے بلے باز ہیں۔ حیران کن طور پر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے نوجوان اوپنر احسان علی 204رنز بنا کر تیسری پوزیشن پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بولنگ شاداب خان نے 10وکٹیں حاصل کیں اور اس کیٹگری میں وہ نمبر ون ہیں، ملتان سلطانز کے خوشد ل شاہ نے اپنی آل راؤنڈ کارکردگی سے گویا سب انگشت بدنداں ہیں کہ انہوں نے 9وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ دکھا چکے ہیںجس سے وہ دوسرے نمبر کے بولر بن چکے ہیں انہیں کے ٹیم میٹ عمران طاہر 7وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔
نیشنل سٹیڈیم کراچی میں پچز کی تیاری یعنی بہتر ی سے نتائج بھی پرکشش اور کرکٹ بھی پرلطف ہوئی ہے اسی طرح ایک انتہائی اہم فرق سے میچز کے نقشے تک بدلے ہیں۔ یہ فرق کپتانی کا ہے ، اچھی قیادت پی ایس ایل سیون میں بھی ابھر کر سامنے آئی ہے جو لکھنے سے زیادہ دیکھنے سے واضح ہے۔ ایونٹ کے چھ کپتانوں میں دو عمر رسیدہ یعنی وہاب ریاض 36 سال کے ہیں جبکہ سرفراز احمد کاقدم خیرسے 34سال میں ہے۔ عمراور کپتانی کے تجربے کے لحاظ سے سب سے چھوٹے شاہین آفریدی ہیں جنہیں 21سال کی عمر میں قیادت کا تاج مل گیا ، ان سے بڑے شاداب خان ہیں جو 23برس کی اننگز کھیل چکے ہیں ۔ ان سے سینئر بابر اعظم ہیں جن کی عمر 27سال جبکہ اس ایج گروپ میں آخری کپتان محمد رضوان ہیں جن کی عمر 29سال میں چل رہی ہے۔
عمر اور تجربے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہاب ریاض اورخاص طور پر سرفرازاحمد کو کامیابیوں کی تاریخ بن جانا چاہیے لیکن نتائج اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ایونٹ کے اپنے پہلے میچ میں وہاب ریاض کورونا ایس او پیز کے باعث نمائندگی سے محروم رہے ، ان کی جگہ شعیب ملک نے قیادت کی ذمہ داری نبھائی اور ٹیم کو انفرادی اور اجتماعی کارکردگی سے 5وکٹ کی شاندار فتح دلائی ۔ ایونٹ کے پانچویں میچ میں وہاب ریاض کا بطور کپتان کم بیک یادگار نہ بن سکا ، اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلا گیا یہ میچ الٹا یکطرفہ ثابت ہوا جس میں فاتحانہ آغاز کرنے والی زلمی کو 9وکٹ کی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اب بات ہوجائے سب سے تجربہ کارکپتان سرفراز احمد کی جنہیں اپنے دوسرے میچ میں بڑی فتح ملی ، اس میں انجریز سے چھٹکارا پانے والے نوجوان بولر نسیم شاہ کی 5وکٹوں نے اسے یکطرفہ بنا دیا۔
کراچی کنگز کی ہیوی ویٹ سائیڈ کو 113رنز پر بُک کیا پھر مطلوبہ ہدف 16ویں اوور میں 2وکٹ پر پورا کر دیا۔ اسی دوران ٹیم کے مینٹور لیجنڈری سر ویووین رچرڈز بھی کراچی پہنچ جاتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹیم کا مورال زیادہ بلند ہوتا لیکن افسوس کہ پھر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے پیچھے ناکامیوں کی بلا ایسے لگی کہ 4فروری تک تو پیچھے نہ ہٹی۔ اس وقت تک چار میں سے تین ناکامیوں پر کپتان سرفراز احمد پر تنقید ایک فطری عمل تھا لیکن ان کے ردعمل نے کرکٹ ماہرین و شائقین کو بے حد مایوس کیا۔ چلتے چلتے اسلام آباد یونائیٹڈ سے ہونے والے میچ کی بات ہوجائے اس میں بھی سرفراز احمد کی کمزور قیادت کا پول کھلا، بولر کو مطلب کے فیلڈر نہ دینے کی بحث اپنی جگہ آخری اوور کرانے کے فیصلے نے بھی کپتان کو گویا فیل کر دیا۔ بپھرے ہوئے کولن منرو اور نوجوان اعظم خان کے سامنے ڈٹ جانے والے لیفٹ آرم اسپنر محمد نواز سے چار اوور کا کوٹہ پہلے ہی مکمل کر ا لیا گیا ، اس کے برعکس کورونا اور کمر درد سے کم بیک کرنے والے آؤٹ آف فارم یعنی تین اوور تک مہنگے ترین ثابت ہونے والے شاہد آفریدی کو آخری اوور کے لیے رکھنا کہاں کی سمجھداری ہے، بہترتو تھا کہ بھاری بھر کم اعظم خان کے سامنے فاسٹ بولر جیمز فالکنر یا سہیل تنویر کو آخری اوور دیا جاتا لیکن کراس کمبی نیشن یعنی دائیں ہاتھ کے بلے باز کو بائیں ہاتھ کے بولر محمد نواز کے سامنے لایا جاتا تو اچھا ہوتا۔
ناکامیوں کی ایک اور داستان بابراعظم کی کپتانی بھی ثابت ہوئی جو ”اونچی دکان پھیکا پکوان“ کی تمثیل بن گئی۔ کپتانی اچھی نہیں کی، اپنی پرفارمنس سے بھی گئے اور اوپر سے دونوں مین فاسٹ بولر محمد عامر اور نوجوان محمد الیاس انجری کا شکار ہو کر ایونٹ سے ہی آؤٹ ہو گئے اور یوں میزبان ٹیم کا اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی شائقین کے سامنے ناکام رہنے کا جواز مل گیا۔
خیر! یہ تو تھا شکستوں پہ شکستہ دل ہونا اب بات ہو جائے کامیابیوں کی جس کا سہرا اچھی قیادت کے سر سجایا تو غلط نہ ہو گا۔ ایونٹ کے ناقابل شکست محمدرضوان کی ٹیم پرفارمنس اور ٹاپ پوزیشن نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی کپتانی کے کیا ہی کہنے ، اس سے بڑھ کر کیا مثال دی جائے کہ دو میچز میں خود نہ پرفارم کر سکے لیکن کپتانی ایسی کر دی کہ ہار کو جیت میں تبدیل کر دیا۔ ایک کامیابی خالصتا ان کی بہترین کپتانی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دراز قد ٹِم ڈیوڈ کو باو ¿نڈری لائن پر کھڑا کر کے مشکل کیچ کرا کے میچ کا نقشہ ہی بدل ڈالا، اسی طرح پارٹ ٹائم بولر خوشدل شاہ کو اعتماد دے کر بولنگ کرا کے ایک وقت ٹاپ وکٹ ٹیکر بنا دیا۔
کرکٹ اب صرف ایک کھیل ہی نہیں رہا بلکہ آرٹ اور سائنس کی حیثیت اختیار چکی ہے اسی طرح کپتانی بھی اہم ترین ذمہ داری بن چکی ہے جسے بروقت فیصلے، اپنی اور ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر نظر رکھنا اور ہر عمل کا مثبت ردعمل دینا ہی اچھے کپتان کو کامیابیوں کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ پاکستان سپر لیگ سیون کے مقابلے جاری ہیں جس کے چیمپئن کا فیصلہ زندہ دلان کے شہر لاہور میں 27فروری کو ہو گا۔ جس کا کرکٹ دیوانوں کو شدت سے انتظار ہے۔