لاہور: (رپورٹ ۔ طارق حبیب) بچوں سے زیادتی اور ان کی ویڈیوز کی خریدوفروخت کرنے والے بین الاقوامی نیٹ ورک کے کارندے سہیل ایاز کی رہائی کے لیے اہم شخصیت کی جانب سے دبائو ڈالے جانے کے بعد کیس کی تحقیقات محدود ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
بین الاقوامی طور پر مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے سزایافتہ شخص کو سفارش کی بنیاد پر کے پی کے حکومت کا ورلڈ بینک کے لیے مشیر تعینات کیا گیا تھا۔ سہیل ایاز کی راوالپنڈی سے گرفتاری اس وقت عمل میں آئی تھی جب ایک خاتون زبیدہ بی بی کی جانب سے 12سالہ بچے کے ساتھ زیادتی کی درخواست جمع کرائی گئی تھی۔
پولیس نے سہیل ایاز کو گرفتار کرکے تحقیقات شروع کیں تو انکشاف ہوا کہ ملزم سہیل ایاز بچوں سے زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنا کر ڈارک ویب پر دکھانے والے بین الاقوامی گروہ کا سرگرم رکن اور مختلف ممالک سے سزا یافتہ ہے۔
سہیل ایاز نے دوران تفتیش 30 سے زائد بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے۔ ذرائع نے واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے بعد سے ہی اعلیٰ شخصیت کی جانب سے ملزم کی حمایت میں دبائو آنا شروع ہوگیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے کیس کی تفتیش کے دوران ایف آئی اے مدد بھی طلب کی گئی ہے۔ ایف آئی اے افسران کی جانب سے مذکورہ کیس پر مدد دینے میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ملزم ورلڈ بینک کے ہیلتھ اور پلیننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے منصوبے کے لیے کے پی کے حکومت کا مشیر تھا۔ سوشل میڈیا پر کے پی کے حکومت کے حمایتی پیجز کی جانب سے تاثر دیے جانے کی کوشش کی گئی کہ سہیل ایاز بنیادی طور پر ورلڈ بینک کی جانب سے نامزد کردہ شخص تھا جس کے جواب میں ورلڈ بینک کے نمائندہ کی جانب سے ٹویٹ کے ذریعے تاثر کو زائل کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ سہیل ایاز کی ورلڈ بینک کے منصوبوں کے لیے بطور کے پی کے حکومت کے مشیر تعیناتی بھی حکومتی اہم شخصیت کی سفارش پر کی گئی تھی جس کی وجہ سے اس اہم اور حساس تعیناتی کے دوران ملزم کے کوائف اور ماضی کی چھان بین نہیں کی گئی تھی۔
سہیل ایاز کا نام دس سال قبل جون 2009 میں اس وقت سامنے آیا جب اٹلی کی پولیس نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر وائرل کرنے والے بین الاقوامی گروہ کے اطالوی کارندے کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد ناروے پولیس کے افسر کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ دونوں گرفتار افراد نے سہیل ایاز کا نام اٹالین پولیس کو دیا تھا اور دوران تفتیش انکشاف کیا کہ بچوں اور خصوصی طور پر جنگ زدہ،خانہ جنگی کا شکار اور قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کے یتیم بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کے رکن سہیل ایازنے اس بین الاقوامی گروہ کو این جی او کا ضرورت مند بچوں کا ڈیٹا فراہم کیا ہے۔
یہ ڈیٹا 397 تصاویر اور197ویڈیوز پر مشتمل تھا۔ بین الاقوامی گروہ کے گرفتار اٹالین کارندے نے پولیس کو بتایا کہ سہیل ایاز نے بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز بنانے والے بین الاقوامی گروہ کے سویڈش کے باشندے کو رومانین بچے دیے تھے۔
اٹلی میں معاملات سامنے آنے کے بعد سہیل ایاز 2008 میں دو سال کے اسکلڈ ورکر ویزہ پراٹلی سے فرار ہوکر لندن پہنچ گیا تھا۔اٹالین پولیس نے تمام معلومات برطانوی پولیس کو فراہم کیں جسکے بعد برطانوی پولیس کے بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز بنانے والوں کے خلاف بنائے گئے خصوصی سیل نے سیو دی چلڈرن کے ساتھ مل کر دو ہفتے تک سہیل ایاز کی خصوصی مانیٹرنگ کی۔
تنظیم کے سینٹرل لندن میں واقع ہیڈ کوارٹر سے 4 فروری 2009ء کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور اسکے فلیٹ کی تلاشی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں غیرملکی بچوں کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد کرلی گئی تھیں۔
سہیل ایاز پر تین مقدمات قائم کیے گئے تھے جن میں سے دو مقدمات بچوں سے زیادتی کے اور ایک مقدمہ بچوں کی تصاویر و ویڈیوز بین الاقوامی گروہ کو فروخت کرنے کے حوالے سے تھا۔
ہولناک صورتحال ہے کہ کچھ زیادہ تر تصاویر و ویڈیوز 6 سے 18 ماہ کے بچوں سے زیادتی کی تھیں۔ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ سینٹرل و ایسٹرن یورپ اور مڈل اور فار ایسٹ میں مجرم کے مضبوط روابط تھے۔ مجرم نے تینوں مقدمات میں اعتراف جرم کیا۔
گرفتاری کے بعد 28 جولائی کو سہیل ایاز کو 4 سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ سائوتھ وارک کرائون کورٹ کے جج گریگری سٹون نے مجرم کو کہا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ تم بچوں سے زیادتی کرنے والے بین الاقوامی گروہ کے اہم رکن ہواور دنیا میں بچوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو۔تمہیں تاحیات جنسی مریض قرار دیا جاتا ہے اور کبھی بھی بچوں کےساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔
برطانوی قانون کے مطابق ایک سال سے زائد سزا پانے والا شخص برطانیہ سے ڈی پورٹ کردیا جاتا ہےاسی لیے سہیل ایاز کو ڈی پورٹ کرکے اٹلی کے حوالے کردیا گیا جہاں مجرم نے سزا مکمل کی ۔