لاہور: (فہیم حیدر) اکیڈمی ایوارڈز (جس کو آسکر کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے) کو دنیائے فلم کا اہم ترین اعزاز مانا جاتا ہے۔
اکیڈمی آف موشن پکچر آرٹس اینڈ سائنسز کے زیر تحت اس سال 95 ویں آسکر ایوارڈز کی تقریب کا انعقاد ہوا، یہ سلسلہ 1929 سے جاری ہے اور آغاز میں 12 کیٹیگریز میں ایوارڈز دئیے جاتے تھے جن کی تعداد اب 23 ہوگئی ہے۔
مگر سب سے اہم کیٹیگری بہترین فلم کی تصور کی جاتی ہے اور اسے جیتنے والی فلم تاریخ میں اپنا نام درج کروا لیتی ہے۔
2010 سے اب تک 13 فلموں نے یہ اعزاز اپنے نام کیا ہے۔
Everything, Everywhere All At Once (2022)
لاس اینجلس میں آسکرز تقریب اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ جاری ہے جبکہ تقریب سے پہلے فلمی ستاروں نے جلوے بکھیرے۔
ڈینیئل کوان،ڈینیئل شینرٹ اورجوناتھن وانگ نے Everything, Everywhere All At Once کے لیے بہترین فلم کا آسکراپنے نام کرلیا ہے۔
کوڈا (2021)
کوڈا پہلی ایسی فلم ہے جو ایک اسٹریمنگ سروس نے ریلیز کی تھی اور حیران کن طور پر اس کو دیگر اہم شعبوں میں نامزد بھی نہیں کیا گیا تھا۔
قوت سماعت سے محروم افراد کے خاندان کی یہ کہانی دیگر 9 فلموں کو پیچھے چھوڑ کر یہ ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
نو میڈ لینڈ (2020)
یہ وہ سال تھا جس کے دوران کووڈ 19 کی وبا کے باعث دنیا بھر میں سنیما گھر کافی حد تک بند رہے اور فلموں کو بھی بہت کم ریلیز کیا گیا۔
مگر ایک خاتون کی یہ کہانی بہترین فلم کا آسکر ایوارڈز جیتنے میں کامیاب رہی۔
پیرا سائٹ (2019)
یہ پہلی ایسی فلم تھی جو انگلش زبان میں نہیں تھی۔
جنوبی کوریا کی اس فلم کو ملنے والا بہترین فلم کا ایوارڈ حیران کن قرار دیا گیا تھا کیونکہ اسے پہلے غیر ملکی زبان کی بہترین فلم کا ایوارڈ دیا گیا تو یہ خیال سامنے آیا تھا کہ بہترین فلم کا ایوارڈ اسے نہیں مل سکے گا۔
گرین بک (2018)
اس فلم کی کامیابی پر کافی اعتراض کیا گیا تھا کیونکہ اس کے مقابلے پر نامزد دیگر فلمیں جیسے بلیک پینتھر اور Roma کو زیادہ بہتر قرار دیا گیا تھا۔
دی شیپ آف واٹر (2017)
پانی میں رہنے والے فش مین اور ایک خاتون کے درمیان محبت کی یہ کہانی ناقدین کے دلوں کو تو چھونے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئی مگر آسکر ایوارڈز کے لیے ووٹ دینے والے افراد کو ضرور پسند آئی۔
یہ آسکر ایوارڈز جیتنے والی پہلی سائنس فکشن فلم بھی قرار پائی۔
مون لائٹ (2016)
یہ بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ جیتنے والی یہ پہلی ایسی فلم تھی جس کی مکمل کاسٹ سیاہ فام افراد پر مشتمل تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ جب تقریب میں بہترین فلم کا اعلان کیا گیا تو مون لائٹ کی بجائے غلطی سے ایک اور فلم لا لا لینڈ کا نام پکارا گیا۔
اس غلطی کو لا لا لینڈ کے پروڈیوسر نے ٹھیک کرتے مون لائٹ کے نام کا اعلان کیا۔
سپاٹ لائٹ (2015)
یہ فلم بوسٹن کے ایک اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کے گرد گھومنے والی کہانی تھی۔
یہ ایک سچی کہانی پر مبنی فلم تھی اور اس خبار نے مقامی گرجا گھروں میں بچوں کے استحصال کے اسکینڈل کا انکشاف کیا تھا۔
Birdman or (The Unexpected Virtue of Ignorance) (2014)
یہ فلم ایک زوال کے شکار اسٹار کی اسٹیج پر واپسی کے گرد گھومتی ہے جہاں وہ اپنے کیرئیر کو ایک بار پھر نئی زندگی دینے کی کوشش کرتا ہے۔
12 ایئرز اے سلیو (2013)
امریکا میں غلامی کے اوپر بننے والی یہ فلم ایک شخص کی سوانح حیات پر مبنی تھی جسے اغوا کرکے غلام کے طور پر فروخت کیا گیا جس کے بعد اس نے آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کی۔
آرگو (2012)
یہ فلم ایرانی شہر تہران میں پھنسے امریکی شہریوں کو نکالنے کی کہانی پر مبنی تھی۔
اس فلم کی ہدایات بین ایفلک نے دی تھیں اور حیران کن طور پر انہیں بہترین ڈائریکٹر کے لیے نامزد ہی نہیں کیا گیا تھا۔
دی آرٹسٹ (2011)
اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی ڈائیلاگ نہیں تھا بلکہ یہ ایک صدی پرانی خاموش فلموں سے متاثر ہوکر تیار کی گئی تھی۔
اس فلم میں ایک اسٹار کی کہانی دکھائی گئی تھی جسے خاموش فلموں کا عہد ختم ہونے پر زوال کا سامنا ہوا تھا۔
دی کنگز سپیچ (2010)
اس فلم کی کامیابی کو بھی حیران کن قرار دیا گیا تھا کیونکہ اس کے مقابلے پر انسیپشن، دی سوشل نیٹ ورک، بلیک سوان اور True Grit جیسی فلمیں نامزد تھیں۔
یہ ایک برطانوی بادشاہ کی کہانی تھی جو مشکلات پر قابو پاکر تقریر کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔