لاہور: (دنیا نیوز) عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب نے جو لکھا امر ہوگیا، انقلاب کا نعرہ ہی نہیں لگایا، اپنی زندگی کو انقلاب کی عملی تفسیربنا دیا، ان کے چاہنے والوں نے ان کی 96 ویں سالگرہ منائی۔
حبیب جالب 24 مارچ 1928 کو ہوشیار پور میں پیدا ہوئے، اصل نام حبیب احمد تھا۔
تقسیم ہند کے بعد حبیب جالب خاندان کے ہمراہ پاکستان آ گئے، جالب کی آنکھ نے جو دیکھا اور دل نے جو محسوس کیا اس کو من و عن اشعار میں ڈھال دیا اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر انہوں نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔
حبیب جالب کے بے باک قلم نے ظلم، زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدِ عام ہوگیا، ’’ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا‘‘ آج بھی ہر عوامی جدوجہد اور احتجاجی تحریک کا حصہ ہوتا ہے۔
انقلابی شاعر حبیب جالب کے فلمی گیت بھی بڑے مقبول ہوئے، فلم ’زرقا‘ کے گیت نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
حبیب جالب کی نظموں کے پانچ مجموعے ’’برگ آوارہ‘‘، ’’سرمقتل‘‘، ’’عہد ستم‘‘، ’’ذکر بہتے خون کا‘‘ اور ’’گوشے میں قفس‘‘ کے شائع ہو چکے ہیں۔
13 مارچ 1993کو حبيب جالب اس دنیا سے رخصت ہوئے، حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے 16 برس بعد انہیں نشان امتياز سے نوازا۔