سوشل میڈیا صارفین جعلی خبروں پر جلد بھروسہ کر لیتے ہیں: امریکی تحقیق

Last Updated On 03 August,2020 07:25 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا صارفین فیک نیوز پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے کورونا وائرس سے جنم لینے والی عالمی وبا کی تو حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔

خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔

اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔

اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ اس دوران آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟

دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔

فوربز کے مطابق امریکا میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق پھیلنے والی جعلی خبروں پر صارفین جلد بھروسہ کر لیتے ہیں۔

فوربز میں ایک مضمون شائع ہوا ہے، اس مضمون کو ایک ڈاکٹر الیسن ایسکلیشن نے لکھا ہے، جنہوں نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ڈاکٹر ہونے کے طور پر مجھے میڈیکل سے متعلق بہت ساری معلومات ملتی ہیں۔ تاہم اس دوران مجھے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ جعلی خبریں بھی موصول ہوتی ہیں۔ کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ کورونا وباء سے متعلق آپ کے ڈاکٹر کچھ نہیں جانتے۔

انہوں نے کہا کہ اس ہفتے کے دوران مجھے کچھ جعلی خبریں پڑھنے کو ملی جس میں لکھا تھا کہ سبزیاں کھانے سے آنت کو نقصان پہنچتا ہے، کورونا وباء کے دوران ذہنی دباؤ سے نجات کے لیے اگر پھل کھائے تو اس سے میرا وزن بڑھ گیا۔ اس طرح کی بے بنیاد خبروں سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

فوربز کے مطابق امریکا میں کورونا وائرس کے باعث ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد لوگ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، لوگ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی خبروں کو سچ ماننے لگے ہیں، حالانکہ سوشل میڈیا کا استعمال سب کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔

امریکا میں ہونے والی تحقیق کو ’مس انفارمیشن ریویو‘ کا نام دیا گیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے دوران سوشل میڈیا صارفین کو بہت ساری جعلی خبریں مل رہی ہیں، صحت سے متعلق ان خبروں کو موصول ہونے کے بعد لوگ یقین کر لیتے ہیں اور انہیں آزمانا شروع کر دیتے ہیں۔

میک گل یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ٹیلر اون کا کہنا ہے کہ صحت سے متعلق سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق تیزی سے جعلی خبریں گردش کر رہی ہیں، فیس بک اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شہریوں کی بڑی تعداد اس پر یقین بھی کر رہی ہے۔

فوربز کے مطابق جعلی خبریں ماؤں کے لیے بھی خوفناک صورتحال اختیار کر رہی ہے، کیونکہ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ انسیت رکھتی ہیں اور انہیں حوصلہ دیتی رہتی ہیں۔ جعلی خبروں کے حوالے سے مائیں اپنے بچوں سے متعلق بھی پریشان ہیں۔

فوربز کے مطابق ماؤں نے کورونا وائرس کی وباء کے دوران اپنے بچوں کی سکولوں کی واپسی پر ضرورت سے زیادہ سوچنا شروع کر دیا ہے۔ سماجی فاصلے اور ماسک کے استعمال پر بچوں کی ماؤں نے دھیان دینا شروع کر دیا ہے۔

ڈاکٹر نے آرٹیکل میں لکھا کہ اس دوران سوشل میڈیا پر میرے مسینجر پر مسیجز کی بھرمار لگی ہوئی ہے، اس دوران مائیں مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا ماسک پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں کہ فیس ماسک پھیھپڑوں کے لیے نقصان دہ ہے جس کی وجہ سے مائیں بہت زیادہ پریشان ہو گئی ہیں اور اسے مذاق نہیں سمجھنا چاہیے۔
 

Advertisement