برسلز: (ویب ڈیسک) یورپی یونین نے سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک، ٹویٹر اور گوگل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی خبروں کیخلاف مزید ایکشن لیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق جب بات ہوتی ہے کورونا وائرس سے جنم لینے والی وبا کووڈ 19 کی تو حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست وبا کا شکار نہیں ہوا ہے کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ جعلی خبروں سے متعلق ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں، جبکہ امریکی ادارے کے مطابق جعلی خبروں کے باعث 800 سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
دوسری طرف یورپی یونین نے سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک، ٹویٹر اور گوگل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی خبروں کیخلاف مزید ایکشن لیا جائے تاکہ اس کے اثرات سے بچا جا سکے۔
یورپی کمیشن سے تعلق رکھنے والی ویرا جویرا کا کہنا تھا کہ جعلی خبروں کے خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، سوشل میڈیاکے احتساب اور شفافیت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر شہریوں کی بڑی تعداد جعلی خبروں تک رسائی حاصل کرتی ہے۔
ویرا جویرا، جو اس وقت یورپی ڈیمو کریسی ایکشن پلان میں کام کر رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل خطرہ تیزی سے ابھر رہا ہے، جس کے لیے ہمیں نئے قانون بنانا ہوں گے، سوشل میڈیا کے صارفین کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔۔