لاہور: (دنیا نیوز) سوالات ہیں کہ گزشتہ 5 ماہ میں ہم نے کیا سیکھا اور اس علم کو ہم وباء کے خاتمے کے لیے کس طرح استعمال کر سکتے ہیں؟ یہ کہاں سے آیا اور اس نے انسان کو سب سے پہلے کیسے انفیکٹ کیا؟
کورونا وائرس کی مختلف اقسام طویل عرصے سے بنی نوع انسان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ متعدد اقسام کے بارے میں علم ہے کہ ان سے عام زکام ہو جاتا ہے۔
حالیہ تاریخ میں دو اقسام نے مہلک وباؤں کو جنم دیا: سویئر اکیوٹ ریسپی ریٹری سنڈروم (سارس) اور مڈل ایسٹ ریسپی ریٹری سنڈروم (میرس)۔ مگر کووڈ19- کی وباء پھیلانے والے کورونا وائرس نے عالمی سطح پر جو تباہی مچائی ہے، اس کے مقابلے میں اول الذکر وباؤں کا اثر خفیف تھا۔
وباء کے چند ہی ماہ میں اس نے درجنوں ممالک کو لاک ڈاؤن پر مجبور کیا اور ایک لاکھ سے زائد جانیں لے لیں۔ یہ مرض ابھی تک بڑھ رہا ہے۔
لیپڈز کہلانے والے چکنے کیمیکلز میں ملفوف ایک میٹر کے 80 اربویں حصے جتنی چھوٹی اس میخ دار گیند کی کارکردگی غیرمعمولی ہے۔ انتہائی نچلے درجے کے اس قاتل نے انسانیت کو زیر کر دیا ہے۔
دوسری جانب کووڈ 19- کا سبب بننے والے وائرس سارس کوو 2‘‘ کے بارے میں ہمارا علم بھی غیرمعمولی ہے۔ 5 ماہ قبل سائنس اس جرثومے سے واقف نہیں تھی۔ آج اس پر تحقیقات کی وسعت بے مثال ہے۔ ویکسین کے منصوبے پھل پھول رہے ہیں، اینٹی وائرل ادویات کی آزمائشیں ہو رہی ہیں اور تشخیص کے نئے ٹیسٹ سامنے آ رہے ہیں۔
سارس کوو 2‘‘ کے بارے میں کم و بیش یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی بنیاد چمگادڑوں میں پڑی، جن کے بارے میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ ارتقا کے نتیجے میں ان میں مختلف وائرس کے خلاف قوت مدافعت کا تند ردعمل ہوتا ہے۔
اس نے وائرس کو تیزی سے اپنی نقول بنانے کی جانب راغب کیا تاکہ یہ چمگادڑوں کے نظام مدافعت میں سے راستہ بنا سکے۔ نتیجتاً چمگادڑیں تیزی سے نمو پانے والے اور منتقل ہونے والے مختلف وائرس کی آماجگاہ بن گئیں۔
جب چمگادڑوں کے وائرس دوسرے میملز میں جاتے ہیں جن کے مدافعتی نظام کا ردعمل تیز رفتار نہیں ہوتا تو یہ نئے میزبان میں جلد پھیل جاتے ہیں۔ زیادہ تر شواہد بتاتے ہیں کہ سارس کوو 2‘‘ کا انسانوں میں داخلہ کسی وسیلے، جیسا کہ پینگولین، سے ہوا۔
سڈنی یونیورسٹی کے ماہر وبائیات پروفیسر ایڈورڈ ہولمز کہتے ہیں یہ وائرس غالباً چمگادڑ سے کسی دوسرے جانور میں داخل ہوا اور وہ جانور شاید انسان کے قریب تھا، غالباً کسی منڈی میں تھا۔‘‘ ان کے مطابق اگر جنگلی جانور نے چمگادڑ سے وائرس لیا ہے اور اس سے ہمارا واسطہ پڑا ہے، تو خاصا امکان ہے کہ یہ اس جانور کے قریب جانے والے انسان میں پھیل جائے۔ اس کے بعد وہ فرد گھر گیا ہوگا اور اس نے کس دوسرے کو متاثر کیا ہو گا جس کے بعد وباء پھیل گئی ہو گی۔‘‘
سارس کوو 2‘‘ متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینک سے نکلنے والے مائع کے قطروں یا چھینٹوں سے منتقل ہوتا ہے۔
وائرس کیسے پھیلتا ہے اور لوگوں کو کیسے متاثر کرتا ہے؟
وائرس کے ذرات دوسرا سانس کے ساتھ اندر لے جاتا ہے اور گلے اور نرخرے کے بیرونی خلیوں سے ان کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ ان خلیوں کی بیرونی سطح پر ان آخذوں (ریسپٹرز) کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو اے سی ای 2 آخذے کہلاتے ہیں۔ (آخذے خلیوں کے اندر کیمیکلز کے داخلے اور خلیوں کے درمیان اطلاعات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔) ماہر وبائیات اور نوٹنگم یونیورسٹی کے پروفیسر جوناتھن بال کے مطابق اس وائرس کی سطح پر ایک پروٹین ہے جو آخذے کو عمدگی سے کھولتی ہے اور یہ اپنا آر این اے خلیے میں سرکا دیتا ہے۔‘‘
اس آر این اے کے ایک مرتبہ داخل ہونے پر خلیے کی نقول بنانے کی مشینری وائرس کی کئی نقلیں تیار کرتی ہے۔ یہ خلیے میں پھٹ پڑتی ہیں اور انفیکشن پھیل جاتی ہے۔ جسم کے نظامِ مدافعت سے جنم لینے والی اینٹی باڈیز (ضدِ جراثیم) آخر کار وائرس کو نشانہ بناتی ہیں اور زیادہ تر کیسوں میں اس کی نمو روک دیتی ہیں۔
بال کا کہنا ہے کہ کووڈ19- کی انفیکشن عموماً خفیف ہوتی ہے اور وائرس کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ انہیں انفیکشن ہو گئی ہے، اس لیے وہ کام، گھر اور بازار میں آنا جانا جاری رکھ کر دوسروں کو انفیکٹ کرتے رہتے ہیں۔‘‘
اس کے مقابلے میں سارس‘‘ کا مرض، جو ایک اور قسم کے کورونا وائرس سے ہوتا ہے، مریض کو کہیں زیادہ بیمار کر دیتا ہے، اس کے 10 مریضوں میں سے ایک مر جاتا ہے۔ زیادہ تر کیسوں میں اس کے مریضوں کو ہسپتال داخل کرنا پڑتا ہے جس سے دوسروں میں انفیکشن کا عمل رک جاتا ہے کیونکہ منتقلی کی زنجیر میں رخنہ پڑ جاتا ہے۔ کووڈ19- کی شدت اگر کم ہو تو ایسا نہیں ہوتا ہے۔
وائرس سے بعض اوقات موت کیوں واقع ہو جاتی ہے؟
کبھی کبھار وائرس سے شدید مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ تب ہوتا ہے جب وائرس نظامِ تنفس کے نچلے حصے کی طرف بڑھتا ہے اور پھیپھڑوں کو انفیکٹ کرتا ہے، جن کے خلیوں میں اے سی ای 2 آخذے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بہت سے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اور پھیپھڑوں میں ٹوٹے پھوٹے خلیوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ ایسا ہونے پر مریض کو خصوصی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
چند کیسوں میں اس سے بھی برا ہوتا ہے اور نظامِ مدافعت حد سے زیادہ کام کرنے لگتا ہے، وہ خلیوں کو پھیپھڑوں کی جانب راغب کرتا ہے تاکہ وہ وائرس پر حملہ آور ہوں۔ نتیجتاً سوزش پیدا ہوتی ہے۔
یہ عمل قابو سے باہر ہو سکتا ہے، مدافعتی خلیوں کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے اور سوزش شدید ہو جاتی ہے۔ اسے سائٹوکائین سٹارم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ (یونانی میں سائٹو‘‘ کا مطلب خلیہ اور کینو‘‘ کا حرکت ہے۔) اس سے بعض مرتبہ مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
یہ واضح نہیں کہ کیوں چند مریضوں میں سائٹوکائین سٹارم‘‘ آتے ہیں جبکہ اکثریت میں نہیں۔ ایک امکان یہ ہے کہ بعض مریضوں میں اے سی ای 2 آخذوں کی قسم ایسی ہوتی ہے جن پر کورونا وائرس زیادہ آسانی سے مداخلت کر لیتا ہے، جبکہ اکثریت میں ایسا نہیں ہوتا۔
اگر ایک بار انفیکشن ہو جائے تو کیا ہم عمر بھر محفوظ رہیں گے؟
کووڈ 19- کی انفیکشن کے بعد بحال ہونے والے مریضوں کا جائزہ لینے والے ڈاکٹروں نے ان کے خون میں اس مرض کو بے اثر کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح کو خاصا بلند پایا ہے۔
یہ اینٹی باڈیز نظامِ مدافعت بناتا ہے۔ یہ مخصوص مقامات پر حملہ آور وائرس پر ایک تہہ جما دیتی ہیں جس سے ان کی خلیوں میں داخل ہونے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
امپیریل کالج لندن کے ماہر وبائیات مائیک سکنر کہتے ہیں یہ واضح ہے کہ کووڈ19- میں مبتلا افراد میں مدافعتی عمل بہتر ہو جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز آئندہ انفیکشنز کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہیں، لیکن خیال رہے کہ اس تحفظ کے تا حیات رہنے کی امید نہیں۔‘‘
بیشتر ماہرین وبائیات کا خیال ہے کہ کووڈ 19- کے خلاف مدافعت ایک یا دو سال رہے گی۔ سکنر کے مطابق انسانوں کو انفیکٹ کرنے والے دوسری اقسام کے کورونا وائرس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اگر زیادہ تر آبادی اس وائرس کا شکار ہو جائے تو بھی اس کے وباء بننے کا امکان موجود رہے گا، یعنی ہم اس مرض کی انفیکشن میں کسی مخصوص عرصے میں اضافے کا مشاہدہ کریں گے۔ کووڈ19- پر ہمیں ثابت قدمی کی ضرورت پڑے گی۔‘‘
المختصر، وائرس ایک عرصہ تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ لیکن کیا وائرس کی زہریلی تاثیر میں کمی آئے گی؟ بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ کم مہلک ہو جائے گا۔ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ تغیر پیدا کر کے مزید مہلک ہو جائے گا۔ سکنر کو ایسا نہیں لگتا۔ ان کے مطابق ہمیں اس وباء کو وائرس کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، یہ دنیا بھر میں بہت اچھے طریقے سے پھیل رہا ہے، یہ اپنا کام ٹھیک سے کر رہا ہے۔ اسے تغیر سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘‘ سکنر کا کہنا ہے کہ بالآخر مؤثر ویکسین کی تیاری اور وسیع تقسیم ہمیں کووڈ19- کے خطرے سے آزاد کرے گی۔
کیا ہمیں ویکسین ملے گی؟
چند روز قبل جریدہ نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی اطلاع کے مطابق دنیا بھر میں ویکسین کے 78 منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 37 کی ابتدا ہونے والی ہے۔ جاری منصوبوں میں درجہ اول پر پہنچنے والوں میں ایک ویکسین پروگرام آکسفورڈ یونیورسٹی کا، دوامریکی بائیو ٹیکنالوجی کارپوریشن اور تین چینی سائنس دانوں کے ہیں۔
اس شاندار ردعمل سے امید پیدا ہوتی ہے کہ کووڈ19- کی ویکسین خاصے کم وقت میں تیار ہو جائے گی۔ البتہ ویکسین کو محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہزاروں افراد کو ویکسین یا کوئی بے ضرر مواد (پلیسیبو) دیاجاتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اول الذکر قدرتی طور پر ہونے والی وائرس کی انفیکشن روکنے کے لیے کتنی مؤثر ہے۔ یہ یقینا طویل عمل ہوتا ہے۔
اسی لیے چند سائنس دانوں نے اس عمل کو تیز کرنے کا راستہ تجویز کیا ہے، یہ کہ ویکسین کی تاثیر دیکھنے کے لیے رضاکاروں کو جان بوجھ کر وائرس میں مبتلا کیا جائے۔ رٹجرز یونیورسٹی میں حیاتی اخلاقیات کے پروفیسر نیر ایام کا کہنا ہے یہ راستہ خطرے سے خالی نہیں لیکن اس سے مجوزہ ویکسین کی آزمائش کئی ماہ جلد مکمل ہونے کی امید ہے۔‘‘
ان کا زور اس بات پر ہے کہ رضا کار نوجوان ہوں اور صحت مند بھی ہوں، ان کی صحت کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا رہے اور انہیں انتہائی نگہداشت اور دستیاب ادویات تک رسائی حاصل ہو۔‘‘ اس کا ثمر ایک ایسی ویکسین کی صورت میں ملے گا جس سے کروڑوں افراد کی زندگیاں بچ جائیں گی کیونکہ یہ کہیں زیادہ کم وقت میں تیار ہو گی اور آزمائش کے معیار کے مطابق تینوں درجوں سے گزر چکی ہو گی۔
لیکن جان بوجھ کر لوگوں کو وائرس میں مبتلا کرنا، بالخصوص ان رضاکاروں کو جو تجرباتی ویکسین کی آزمائش میں شامل ہوں، متنازعہ ہے۔ برسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم فِن کہتے ہی کہ اس بارے میں اچھی طرح غور کرنا چاہیے۔ نوجوان اس موقع پر آزمائش کے لیے شاید فوراً تیار ہو جائیں لیکن یہ وہ وائرس ہے جو نوجوانوں کو بھی مار دیتا ہے۔ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ کیوں۔ البتہ درجہ سوم کی آزمائش کا مرحلہ ابھی نہیں آیا، اس لیے ہمارے پاس اس بارے میں سوچنے کا وقت ہے۔‘‘
(ترجمہ: رضوان عطا) بشکریہ دی گارڈین‘‘