لاہور: (دنیا نیوز) جگر اورگردوں کا مرض تیزی سے پھیلنے لگا، پیوند کاری کی ناکافی سہولتوں کے باعث صورتحال قابو سے باہر ہوگئی، 22 ارب روپےکی لاگت سے بننے والا پی کے ایل آئی بھی دعوؤں کے مطابق نتائج نہ دے سکا۔
پنجاب میں جگر اور گردوں کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ، ہر نواں شخص ہیپاٹائٹس سی کا شکار، سالانہ 5 ہزار افراد کو جگر کی پیوند کاری کی ضرورت ہے۔ پنجاب کے 5 سرکاری و نجی ہسپتالوں کو جگر کی پیوندکاری کی اجازت دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق 2014ء سے اب تک صوبے میں جگر کی 240 پیوندکاریاں ہو چکیں جس میں 100سے زائد افرادجاں بحق ہوگئے۔ پنجاب میں جگر کی پیوند کاری میں کامیابی کی شرح 40 فیصد جبکہ گردوں کی 70 فیصد رہی۔ 2014ء سے اب تک 26 سرکاری و نجی ہسپتالوں میں گردوں کی 1646 پیوند کاریاں ہوئیں۔ 22 ارب روپے سے بننے والے پی کے ایل آئی میں 3 برسوں میں جگر کے صرف 7 مریضوں کی پیوندکاری کی گئی۔
شیخ زاید ہسپتال میں سب زیادہ جگر کی 181پیوند کاریاں ہوئیں تاہم 80 افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے جس پر شیخ زاید ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ سنٹر کو بندکر دیا گیا۔ نجی سطح پر بحریہ انٹرنیشنل ہسپتال میں 51 اور حمید لطیف ہسپتال میں جگر کی 2 پیوند کاریاں ہو چکی ہیں۔
ڈی جی پاکستان ہیومن آرگنزٹرانسپلانٹ اٹھارٹی ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ کیداویرک آرگن ٹرانسپلانٹیشن شروع کرنے جا رہے ہیں جس میں وصیت کے مطابق اعضاء عطیہ کرنے والے افراد اور حادثات میں دماغی طور پر ڈیڈ افراد کے لواحقین کی اجازت سے اعضاء لئے جائیں گے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ویجی لینس عدنان احمد کا کہنا ہے کہ اب تک غیر قانونی پیوند کاری کرنے پر 12 گروہوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور ایجنٹس سمیت 20 افراد کے خلاف ایف آئی آرز درج کروا چکے۔
معروف لیور ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر طارق بنگش کا کہنا ہے کہ آپریشن کے 30 دن کے اندر اموات کی شرح 20 فیصد ہے، احتیاطی تدابیر اور ادویات کا مناسب استعمال نہ کرنے پر شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔