لندن: (ویب ڈیسک) کورونا کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی نئی قسم کے بارے میں ماہرین نے انتباہی انداز میں بتایا کہ ابھی تک اس نئی اے این 501 وائے میوٹیشن کے بارے میں کافی کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی پتا ہے کہ یہ کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق 20 دسمبر تک 18 یورپی ممالک نے برطانیہ سے پروازوں کی آمد یا سخت قرنطینہ جیسی پابندیوں کا نفاذ کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی بین الاقوامی پروازوں پر پابندی عائد کی ہے۔
جرمنی کے معروف وائرلوجسٹ کرسٹین ڈروسٹین نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ جرمنی میں یہ نئی قسم پہلے سے گردش کررہی ہے، تاہم ابھی اس بارے میں زیادہ علم نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی اس نئی قسم این 501 وائے کے بارے میں سانسی ڈیٹا ابھی تک واضح نہیں۔ ایسے دعویٰ سامنے آئے ہیں کہ یہ نئی قسم سابقہ اقسام کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، جس کی تصدیق رواں ہفتے برطانوی سائنسدانوں کو کرنا ہوگی۔
کرسٹین ڈورسٹین نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ وائرس کی نئی قسم جنوب مشرقی برطانیہ میں وائرس کی نئی لہر کا نتیجہ ہے یا یہی قسم نئی لہر کا باعث بنی، ان دونوں میں نمایاں فرق ہے۔ یہ نئی قسم دیگر ممالک جیسے نیدرلینڈز میں بھی دیکھی گئی ہے، جہاں یہ بظاہر بہت زیادہ تیزی سے نہیں پھیلی۔
فرانس کے انسٹیٹوٹ پیسٹر کے ونسینٹ اینوف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اب تک برطانیہ میں اس نئی قسم اور تیزی سے پھیلاؤ کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ کے کچھ حصوں میں یہ قسم تیزی سے پھیل رہی ہے، مگر یہ وائرس کے سپر اسپریڈرز ایونٹس کا نتیجے ہے یا نئی قسم کا؟ اس سب کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈچ حکومت نے اتوار کو اس نئی قسم سے متاثر ایک کیس کی تصدیق کی تھی اور عندیہ دیا تھا کہ یہ قسم کچھ عرصے پہلے سے اس ملک میں پھیل گی ہوگی۔
نیدرلینڈز کی اراسموس یونیورسٹی کے وائرلوجی پروفیسر ایب اوسٹیرہوس کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ یہ نئی قسم نیدرلینڈز میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ علاقے ہیں، جہاں اس قسم سے منسلک کیسز کی شرح تیزی سے بڑھی ہے، مگر میں نہیں جانتا کہ اس کی کوئی وضاحت بھی سامنے آئی ہے یا نہیں۔
اراسموس میڈیکل سینٹر کے ایک اور وبائی امراض کے ماہر برٹ ہاگ مانس نے کہا کہ وائرس کی اقسام اور پھیلاؤ کے درمیان تعلق کو واضح کرنا مشکل ہے، کیا واقعی کیسز میں تیزی سے میوٹیشن کا نتیجہ یے یا دیگر عناصر نے بھی اس میں کردار ادا کیا؟
اراسموس ڈیپارٹمنٹ وائرس سائنس کی سربراہ ماریون کوپمانس نے بتایا کہ ایسے واقعات موجود ہیں، جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ متعدی ہے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ نیدرلینڈز میں پہلے ہی لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے، جس سے بھی اس قسم کے فوری پھیلاؤ کی روک تھام میں مدد ملی۔ اٹلی میں بھی ایک خاتون میں اس نئی قسم کی تشخیص ہوی ہے جو حال ہی میں لندن سے واپس آئی تھی۔
اطالوی وزیر صحت رابرٹو اسپیرنزا کا کہنا ہے کہ اگر وائرس ووہان سے بغیر کسی نوٹس کے پہنچ سکتا ہے، تو ہم اس نئی قسم کے بارے میں فکرمند کیوں نہ ہوں، جو ممکنہ طور پر پہلے ہی روم ، وینس اور دیگر حصوں میں موجود ہوسکتا ہے؟
اٹلی کی میلان یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر ماسیمو گالیائی نے کہا کہ ایسا ممکن ہے ہمیں ایک ایسی قسم کا سامنا ہے جو زیادہ خطرناک نہیں، مگر پھیلاؤ کی حیران کن صلاحیت رکھتا ہے، تاہم کسی دعویٰ سے قبل مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔