لندن: (ویب ڈیسک) برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا کہ ابتدائی مراحل میں 70 فیصد مؤثر ثابت ہونیوالی ملیریا کی ویکسین اس بیماری کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی دے سکتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وقت ملیریا سے ہر سال 4 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں، ہلاک ہونے والوں میں افریقی صحرائے اعظم کے جنوبی علاقے (سب صحارن افریقا) سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
تاہم گزشتہ برسوں میں کئی قسم کی ویکیسنز کے استعمال کے باوجود کسی کو بھی اتنی کامیابی حاصل نہیں ہوئی جتنی کہ درکار تھی۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئی ویکسین کا صحتِ عامہ پر بہت اچھا اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ جب برکینا فاسو میں 450 بچوں پر تجربہ کیا گیا تو یہ ویکسین ان کے لیے محفوظ تھی اور اس کا اگلے بارہ مہینوں کے دوران ان پر اثر برقرار رہا۔
ان نتائج کی مزید تصدیق کے لیے براعظم افریقا کے چار ممالک میں پانچ ماہ سے لے کر تین برس کے 5000 بچوں پر اس کے مزید ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
ملیریا ایک مہلک بیماری ہے جو انسانوں میں مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے پھیلتی ہے اگرچہ اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے تاہم صحت کا عالمی ادارہ کہتا ہے کہ 2019 میں اِس سے تقریباً 23 کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور چار لاکھ نو ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
بیماری کے لگنے کے بعد ابتدا میں بخار ہوتا ہے، پھر سر درد محسوس ہوتا ہے، سردی محسوس ہوتی اور علاج نہ کیے جانے کی صورت میں یہ سنگین صورت اختیار کرسکتی ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہِ ویکسیونولوجی کے پروفیسر اور جینر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، ایڈرین ہِل جو اس ویکسین کی ریسرچ کے شریک مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ یہ پہلی ویکسین ہے جو صحت کے عالمی ادارے کی کم از کم موثر ہونے کی 75 فیصد شرح تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اب تک ملیریا کے لیے جتنی بھی ویکیسنز بنی ہیں اُن کی افریقہ کے بچوں پر کامیابی کی شرح 55 فیصد رہی ہے۔
نئی ویکسین کی آزمائش 2019 سے شروع ہوئی تھی، کورونا کی وبا کے پھوٹنے سے کافی پہلے اور پروفیسر ہِل کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم نے کووڈ-19 کی ویکسین بنانے کے لیے ملیریا کی ویکسین کے لیے کی گئی ریسرچ سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی ملیریا ویکسین کو کامیاب ہونے میں اتنا وقت اس لیے لگا ہے کیونکہ کورونا وائرس کے مقابلے میں ملیریا میں ہزاروں جینز ہوتے ہیں جبکہ کورونا وائرس میں چند درجن جینز ہوتے ہیں۔
پروفیسر ہِل نے کہا کہ یہ حقیقت میں ایک بہت ہی تکنیکی چیلنج ہوتا ہے۔ ویکسینز کی بہت بڑی اکثریت اس بیماری کے خلاف زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہے کیونکہ یہ بہت مشکل بیماری ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نے کہا کہ اس کے آزمائشی نتائج کا مطلب ہے کہ اس ویکسین میں صحت عامہ کو بہت زبردست فائدہ پہنچانے کی صلاحیت ہے۔
میڈیکل ریسرچ کے معروف عالمی جریدے میں شائع ہونے سے قبل کے ایک مسودے کے مطابق، آکسفورڈ یونیورسٹی، نانورو برکینا فاسو اور امریکی ماہرین پر مشتمل ایک ریسرچ ٹیم نے R21/Matrix-M کے آزمائشی نتائج کی معلومات دی ہیں جو کہ اِس نے مئی اور اگست کے مہینوں میں کم مقدار اور زیادہ مقدار کی ویکسین کے کیے، یہ وہ وقت ہے جو ملیریا کے مرض کے پھیلنے سے پہلے اور بعد کے سیزن کے مہینے بنتے ہیں۔
آزمائشی نتائج سے ثابت ہوا کہ زیاد مقدار کی ویکیسن سے 77 فیصد کامیابی حاصل ہوئی جبکہ کم مقدار کی خوراک سے 71 فیصد کامیابی ملی۔