فیض آباد دھرنے سے متعلق آئی بی اور آئی ایس آئی کی رپورٹس مسترد

Published On 30 Nov 2017 03:07 PM 

پاکستان میں ہر آدمی قابل احتساب ہے، کیا مقاصد حاصل کرنے کے لیے دھرنے ہوں گے؟، کہانی ختم نہیں ہوئی، سنا ہے دھرنا چل رہا ہے: جسٹس قاضی عیسیٰ کے ریمارکس

اسلام آباد: (دنیا نیوز ) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس میں حساس ادارے کی نئی رپورٹ بھی مسترد کر دی۔ عدالت نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کا نمائندہ پیش نہ ہونے پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، سنا ہے دھرنا چل رہا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس لے لیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سادہ سی بات پوچھی ہے کہ دھرنے میں کتنے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے؟، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا پنجاب سے ایک رپورٹ آئی ہے جس پر کسی کے دستخط نہیں، اٹارنی جنرل آفس میں موصول رپورٹ میں جانی نقصان کا ذکر نہیں، رپورٹ کے مطابق میٹرو بس اور 1122 کی گاڑیوں کونقصان ہوا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا وزارت داخلہ کے مطابق 146 ملین روپے کا نقصان ہوا، اس نقصان کی تلافی کون کرے گا ؟، کیا پاکستان میں املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت ہے؟، سرکاری املاک بھی عوام کی ہوتی ہیں، سارے نقصان کا اندازاً تخمینہ کیا ہے؟، کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام پر بات نہیں ہو سکتی؟

یہ خبر بھی پڑھیں:آئندہ سماعت پر انٹیلی جنس اداروں کے افسران طلب

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا آئی ایس آئی کی رپورٹ سربمہر لفافےمیں پیش کر دی ہے جس پر جسٹس مشیر عالم نے سہیل محمود سے استفسار کیا ہمیں بتا دیں کیا آئی ایس آئی رپورٹ میں کوئی خفیہ معلومات ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا آئی ایس آئی کی رٹ تو پورے پاکستان میں ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا مظاہرین کے پاس آنسو گیس کے شیل، پتھر اور ڈنڈے کہاں سے آئے؟، یہ چیزیں مظاہرین کو کس نے فراہم کیں؟، دارالحکومت محفوظ نہیں بنا سکتے تو ملک کو کیسے بنائیں گے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا دھرنے کے دوران 27 مقدمات کا اندراج ہوا۔ جس پر جسٹس مشیر عالم نے پوچھا اسلحہ اور آتش گیر مواد والے کتنے افراد کیخلاف مقدمات درج ہوئے؟۔

یہ خبر بھی پڑھیں:حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان دھرنا ختم کرنے کا معاہدہ طے پا گیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا پاکستان میں ہر آدمی قابل احتساب ہے، ملک کے لوگ بڑے شریف ہیں وہ شرافت میں مارے جاتے ہیں، کیا مقاصد حاصل کرنے کے لیے دھرنے ہوں گے؟، سیاست کےعلاوہ ملک کے لیے بھی سوچ لیا کریں، مفت میں ملی آزادی کو تباہ نہ کریں، آزادی کی قدر روہنگیا مسلمانوں سے پوچھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ کس کا ایجنڈا ہے اور اسلامی ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے، ہمیں پرواہ نہیں جتنی مرضی گالیاں دیں، یہ غلط ہے کہ فوج حکومت سے الگ ہے، حکومت اور فوج کو بدنام نہ کیاجائے، ایسا کرنے والے ذاتی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا جو دیکھ رہے ہیں اس پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی۔

یہ خبر بھی پڑھیں:فیض آباد میں 22 روز تک جاری رہنے والا دھرنا ختم کرنے کا اعلان

قبل ازیں پولیس کی جانب سے فیض آباد دھرنے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ معاملہ حساس تھا اس لیے زیادہ وقت مذاکرات پر لگا، 20 روز تعیناتی کے بعد اہلکار تھک چکے تھے۔ پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا آپریشن میں صوبوں کی پولیس، ایف سی اور رینجرز کے لگ بھگ ساڑھے 5 ہزار پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا۔ دھرنے کے مقام پر پولیس 20 دنوں سے تعینات تھی جس کی وجہ سے تھک چکی تھی۔ دھرنا کےمقام پر مختلف میڈیا، سوشل میڈیا اور رئیل ٹائم انفارمیشن دیتا رہا، آپریشن کے دوران اوپن جگہ کی وجہ سے آنسوگیس کے شیل بھی اثرانداز نہ ہوسکے، آپریشن میں پولیس کے 173 اہلکار زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سکیورٹی اداروں میں کوآرڈی نیشن کا فقدان تھا، رپورٹ میں بتایا گیا احتجاجی مظاہرین ڈنڈوں، پتھروں اور دیگرآلات اٹھائے تھے اور آپریشن کے دوران راولپنڈی سے تازہ دم مظاہرین بھی دھرنے میں شامل ہوتے رہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے پریڈ گراونڈ منتقلی کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا، پولیس کے مذہبی جذبات کو بھی ابھارا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آپریشن شروع ہوتے ہی فیض آباد کا 80 فیصد علاقہ کلیئر کر الیا گیا تھا۔