قومی اسمبلی میں وزیر انچارج ہوابازی نے تحریری جواب میں ایوان کو بتایا کہ سکروٹنی کے دوران 659 ملازمین کی ڈگریاں جعلی نکلیں۔ اس پر 391 افراد کو نوکریوں سے برطرف کردیا گیا۔251 کے کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جبکہ 17 ملازمین کے خلاف محکمانہ کارورائی ہورہی ہے، قومی اسمبلی میں قومی ایئرلائن کے خسارے کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔
ایوان کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کو گزشتہ برس 2017 میں مجموعی طور پر تینتالیس ارب پینسٹھ کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔ دس سال قبل 2008 میں پی آئی اے کا خسارہ انتالیس ارب اٹھانوے کروڑ روپے تھا۔ 2009 میں پی آئی اے کا خسارہ تیرہ ارب اکتیس کروڑ، 2010 میں آٹھ ارب اٹھاون کروڑ اور 2011 میں اٹھائیس ارب تین کروڑ روپے رہا۔ پی آئی اے کو 2012 میں انتیس ارب چھہتر کروڑ اور 2013 میں بیالیس ارب اٹھانوے کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔
ایک سوال کا جواب نہ دینے پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق پی آئی اے حکام پر برس پڑے۔ انھوں نے کہا کہ آج برداشت کر لیا، آئندہ ہر سوال کا تفصیلی اور بروقت جواب دینا ہوگا۔ بیوروکریسی نے مسلسل ٹھنڈ پروگرام رکھا ہوا ہے مگر اب ایسا نہیں چلے گا۔ جواب نہ دیئے کی مناسب توجیح ییش کی گئی تو تسلیم کریں گے مگر لاپرواہی قبول نہیں۔
وزارت ریلوے کی جانب سے بتایا گیا کہ گزشتہ چار سال میں ریلوے کی زمینوں پر قبضہ واگزار کرانے میں بڑی پیشرفت ہوئی اور اب تک گیارہ سو چوراسی ایکڑ زمین واگزار کرائی جاچکی ہے۔ قبضوں کے بڑے بڑے مقدمات نیب کو بھی بھیجے جارہے ہیں۔ ریلوے کی زمینوں پر جن کچی آبادیوں نے قبضہ کررکھا ہے ان کی نشاندہی بھی کرلی گئی ہے۔
حکومتی رکن شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ جونیجو دور میں کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کا حکم دیا گیا تھا اس کا کیا ہوا۔ پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص نے بتایا کہ انیس سو پچیاسی سے پہلے کی آباد آبادیوں کو ریگولرائز کئے جارہے ہیں۔ اب تک ہزاروں ایکڑ زمین کچی آبادی کو علاقے الاٹ کئے جا چکے ہیں، پچھلے پانچ سالوں میں بھی کچی آبادیوں کو این او سیز دی گئیں۔