لاہو: (تجزیہ: سلمان غنی) ملک میں جمہوریت کے تسلسل کیلئے آئین پاکستان میں طے شدہ طریقہ کار اور اس کے بروقت انعقاد کی وضاحت کے باوجود ملک کے اعلیٰ سطح کے حکومتی و سیاسی اور پارلیمانی حلقوں میں سیاسی بحث کا موضوع انتخابات کا بروقت انعقاد اور اس کیلئے نگران حکومتوں کی تشکیل ہے اور اس پر سب اپنے اپنے موقف خدشات اور خطرات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں لہذا آج کے حالات میں سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا انتخابات بروقت ہوں گے ، آخر ایسی کونسی وجوہات ہیں کہ ملک میں منتخب حکومت کی موجودگی کے باوجود ایسے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
احتساب کے جاری عمل کے باعث سیاسی لیڈرشپ خصوصاً مسلم لیگ نون نے ان خدشات اور خطرات کا اظہار شروع کر رکھا ہے کہ سیاسی قوتوں کے چاہنے کے باوجود انتخابات بروقت نہیں ہوں گے اور ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے خدشات کا اظہار کچھ اور دیگر سیاسی قوتوں کی جانب سے بھی ہو رہا ہے ، حلقہ بندیوں کے گھمبیر عمل اور ان پر اپیلوں کے سلسلہ کی بنیاد پر بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ عمل انتخابات میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے مگر یہ تاخیر دنوں یا ہفتوں کی تو ہو سکتی ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سلسلہ مہینوں یا اس سے بھی زیادہ دراز ہو سکتا ہے، ملک کے اندر سیاسی اتار چڑھاؤ پر نظر رکھنے والے افراد اور بعض اداروں کے ذمہ داران یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ آنے والے انتخابات کے بروقت انعقاد کا دارومدار بعض قوتوں کو مطلوبہ نتائج کی فراہمی پر ہے، اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ملک میں جاری بحرانی کیفیت کا آغاز سابق وزیراعظم نوازشریف کی عدالتی نااہلی کے بعد ہوا اور آج اپنی انتہاؤں پر ہے۔
نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید وہ اپنی عدالتی نااہلی کے بعد خاموشی اختیار کرتے ہوئے پیچھے بیٹھ جائیں گے لیکن سابق وزیراعظم نے عدالتی نااہلی کے بعد اپنے منصب سے سٹیپ ڈاؤن تو کر دیا مگر حکومتی ایوانوں سے نکل کر گھر جانے کے بجائے میدان میں جا نکلے اور اپنے خلاف آنے والے عدالتی فیصلہ کو سیاسی محاذ پر چیلنج کرنا شروع کیا، نوازشریف کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی نے بھی اس بیانیہ پر کاربند ہوتے ہوئے ملکی اسٹیبلشمنٹ خصوصاً عدلیہ کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا جماعت کے اندر محاذ آرائی کے اس طرزعمل پر دو آرا ہونے کے باوجود نواز شریف کا بیانیہ بھی غالب رہا اور اب صورتحال یہ ہے کہ جماعت کے اندر بھی تحفظات رکھنے والے نوازشریف کے ووٹ بینک کو دیکھتے ہوئے خاموشی طاری کئے بیٹھے ہیں جبکہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست تو اس احتجاجی مہم کا جواب نہیں دیا لیکن نوازشریف کے مخالفین نوازشریف کی پذیرائی کو ہضم نہ کر سکے اور انہوں نے اپنا وزن اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے شریف خاندان کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا۔
سیاسی محاذ پر براہ راست مقابلہ اب نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نظر آ رہا ہے اور اس بنیاد پر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اب فیصلہ ہونا ہے کہ پاکستان میں حاکمیت کس کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک نفسیاتی کیفیت جاری ہے، ایک جانب اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ہمنوا ہر قیمت پر سیاسی محاذ سر کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب نواز شریف اور ان کے اتحادی ملک میں سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر میدان میں موجود ہیں اور دکھائی یہ دے رہا ہے کہ فی الحال اس کیفیت میں ٹھہراؤ والی بات نہیں البتہ انتخابات کے حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کا بر وقت انعقاد اس لیے ممکن ہوا کہ بعض قوتوں کو مطلوبہ نتائج نظر آ رہے تھے اور اس طرح سے نوازشریف سینیٹ میں بڑی اکثریت رکھنے کے باوجود شکست سے دوچار ہوئے لہذا اب بھی آنے والے عام انتخابات کے حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات کے بروقت انعقاد کا انحصار انہی فورسز کو مطلوبہ نتائج کی فراہمی پر ہے جنہوں نے سینیٹ کا محاذ سر کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ آنے والے چند روز خصوصاً نوازشریف کے خلاف ممکنہ عدالتی فیصلہ کے بعد ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ نون کے مضبوط منتخب اراکین کی وابستگیوں میں تبدیلی کے اشارے آ رہے ہیں، اس طرح کے اشاروں کے باعث ہی مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادی اس سوچ و بچار میں مصروف ہیں کہ عدالتی فیصلہ سے قطع نظر ملک کے اندر بروقت انتخابات کے انعقاد کیلئے ایسی فضا طاری کر دی جائے کہ نہ تو نگران حکومتوں کا دورانیہ بڑھے اور نہ ہی بروقت انتخابات پر کوئی اثرانداز ہو، جہاں تک نگران حکومتوں کی تشکیل کا سوال ہے تو اس حوالہ سے طے شدہ آئینی طریقہ کار پر بھی عملدرآمد ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں میں اتفاق رائے کا امکان کم ہے اور جب بات قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے ہوتی ہوئی پارلیمانی کمیٹی تک جائے گی تو بات نہ بن پائے گی پھر گیند الیکشن کمیشن کی کورٹ میں ہو گی اور من پسند نگران میدان میں اتارے جا سکیں گے، حلقہ بندیوں اور احتساب سمیت بعض نکات کو بنیاد بناتے ہوئے الیکشن کے انعقاد میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ سیاسی سائنس کو سمجھنے والے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ بروقت انتخابات سیاسی قوتوں کے اور انتخابات میں تاخیر کا عمل تیسرے فریق کے حق میں جائے گا۔