لاہور: (ویب ڈیسک) تیزی سے رونما ہوتی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے ملک تیزی سے صاف پانی کی قلت کی جانب بڑھ رہا ہے اور ملک کے متعدد علاقوں میں اس کے اثرات نمایاں طور پر نظر آ رہے ہیں۔ خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح گر جانے کی وجہ سے شہریوں کو صاف پانی میسر نہیں۔ لاہور میں بھی صاف پانی کا بدترین بحران ہے جو مستقبل قریب میں انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر لے گا۔
بظاہر تو پانی دنیا کے 70 فیصد حصے پر پھیلا ہوا ہے، لیکن اس کا صرف تین فیصد ہی پینے کے قابل ہے جو آبادی بڑھنے، آلودگی اور دوسری وجوہات کی بنا پر ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔ دنیا میں کم از کم ایک ارب لوگوں کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور 2.7 ارب انسان ایسے ہیں جنھیں سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 5 کروڑ پاکستانی آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ زیر زمین پانی میں آرسینک نامی زہر اور آلودگی شامل ہونے سے خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق صوبہ پنجاب کے مرکز اور ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر لاہور میں پینے کا صاف پانی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق آئندہ دس برس میں لاہور سے پینے کا پانی ختم ہو سکتا ہے۔لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح سالانہ ڈھائی فٹ کم ہو رہی ہے مگر 100 فٹ نیچے موجود یہ پانی آلودہ ہے اور پینے کے لیے مناسب نہیں۔ شہر میں پانی کی کمی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔شہریوں کے مطابق انہیں ملنے والا پانی صاف اور پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ وہ اس پانی کو پینے کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پینے کے لیے نجی کمپنیوں کی جانب سے فروخت کیے جانے والے قیمتی پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
پنجاب کے مرکزی شہر میں صاف پانی کی قلت سب سے زیادہ شاہدرہ کے علاقے میں ہے۔ شہریوں کے مطابق پینے کا پانی حکومت اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے لگائے گے فلٹرز سے مقررہ اوقات میں لایا جاتا ہے اور پانی کے حصول کے لیے طویل قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے، جبکہ دیگر ضروریات زندگی کے لیے بھی پانی کم ملتا ہے۔ شہر میں صاف پانی کے لیے 700 فٹ گہرائی تک بورنگ کی جارہی ہے اور ہزار فٹ سے زیادہ پر پانی موجود ہی نہیں۔ واسا کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے دریاؤں اور نہروں سے پانی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔
سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک پاکستان پانی کی شدید قلت والے 33 ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ خیال رہے کہ پاکستان میں گزشتہ چاردہائیوں کے دوران پانی کی کوئی نئی ذخیرہ گاہ تعمیر نہیں ہوئی جس کی وجہ سے نہری نظام میں پانی کی کمی کا سامنا ہے اور پانی کی وافر مقدار سمندر برد ہو رہی ہے۔