تحریک انصاف کی پنجاب میں معنی خیز سیاسی پیش رفت

Last Updated On 10 May,2018 09:15 am

لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) اسلامی بنیاد پر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے پر اتفاق رائے کے بعد جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہونے کے اعلان کو ایک سنجیدہ عمل اور نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اتحاد کی بنیاد صوبے کے قیام کیلئے اقتدار میں آنے کی صورت میں پہلے سو روز میں اس کا باضابطہ اعلان ہو گا۔

آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کی پنجاب میں یہ ایک بہت بڑی اور معنی خیز سیاسی پیش رفت ہے۔ کیونکہ پانامہ کیس کی ہلچل اور اس کے نتیجے میں وزیراعظم کی برخاستگی کے بعد آئے دن افواہوں کا بازار گرم تھا کہ ن لیگ اب ان مخالف ہواؤں کا سامنا نہ کر سکے گی اور پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہو جائیگی۔ مگر نواز شریف اور شہباز شریف براہ راست پارٹی کو متحد رکھنے میں تو کامیاب ہوئے ہیں مگر جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد نے پہلے ن لیگ سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اس وقت چونکہ صوبہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی آئی تھی تو ایسی سیاسی بیوفائی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا تھا اور اس حلقے پنجاب میں جنوبی پنجاب کی بغاوت کو بھی نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔

اب ایسی صورتحال کے فیصلہ کن انجام کیلئے جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر متحرک سیاستدانوں کی با جماعت تحریک انصاف میں شمولیت کا پر جوش اعلان ہے۔ عمران خان صوبہ جنوبی پنجاب کے مطالبہ پر انتہائی مناسب اور معقول مؤقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے بنگال کی محرومی کے نتیجے میں ملک کو پہنچنے والے نقصان کی طرف اشارہ کیا اور صورتحال کا بہتر تجزیہ کیا کہ پنجاب کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم پاکستان کی مضبوطی اور فیڈریشن کے محفوظ مستقبل کی بات کی۔ عمران نے جنوبی پنجاب کی محرومی کے پس منظر میں اختیارات کی تقسیم نچلی سطح پر اور وسائل کے صوبائی سطح مساوی تقسیم کی بات کر کے ایک اچھی پیشرفت ہے۔ ہمیں جنوبی پنجاب بڑے سیاسی خانوادوں کے سیاسی نقطئہ نظر سے اختلاف ہو سکتے ہیں اور یہ جنوبی پنجاب کے حقوق اور صوبہ کے قیام میں کبھی مؤثر کردار تو کجا محض علامتی کردار بھی کبھی نہیں نبھا سکے مگر عمران خان اور تحریک انصاف نے بڑے بہترین سیاسی موقع پر ان کے لئے قومی سیاست کے دروازے کھولے اور ایک یاداشت پر دستخط کیے اور ایک مشترکہ کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ جس سے اب صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام ایک قدم آگے کی جانب بڑھا ہے۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے اس اقدام سے پنجاب میں ن لیگ کو خاصا پریشان کر دیا ہے۔ کیونکہ جنوبی پنجاب کے معاملے پر شہباز شریف کا بیانیہ گزشتہ دس برسوں سے یہی ہے کہ جنوبی پنجاب کی محرومی ختم ہو چکی ہے اور ان علاقوں میں برابری کی بنیاد پر وسائل اور اختیارات پہنچ چکے ہیں۔ مگر جنوبی پنجاب میں ن لیگ کے اندر بغاوت اور اراکین اسمبلی کا انہیں چھوڑ جانا اصل صورتحال واضح کر رہا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی اپنی قرارداد پر ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ عمران خان کو سرائیکی عوام ایک متبادل آپشن کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو شہباز شریف کو سرائیکی خطے میں ایک سخت مقابلے کیلئے اپنی جماعت کو تیار کرنا چاہئے۔ اس خطے میں قومی اسمبلی کی 41 نشستیں ہیں اور تحریک انصاف اگر یہاں سے زیادہ نشستیں لے اڑی تو پنجاب میں طاقت کا توازن تحریک انصاف کے حق میں بھی جا سکتا ہے ۔