لاہور: ( تجزیہ: سلمان غنی) ملک بھر میں بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن کے باعث پیدا ہونے والی غیر معمولی اور ہیجانی کیفیت نے بہت سے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں، اتنا بڑا بریک ڈاؤن کیسے ہوا کیونکر ہوا، وزارت بجلی نے طویل بحران کی تحقیقات کیلئے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جس کی سربراہی ایڈیشنل سیکرٹری پاور کریں گے۔ کمیٹی میں بجلی امور کے ماہرین کو شامل کیا گیا ہے۔
گو کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی اویس خان لغاری کا کہنا ہے کہ بجلی کے بریک ڈاؤن کا واقعہ پہلے بھی رونما ہو چکا ہے لیکن اس بڑے پیمانے پر بریک ڈاؤن کی تحقیقات میں ذمہ داری کا تعین اور تکنیکی وجوہات کا جاننا اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ صورتحال میں جب حکومت اپنے عرصہ اقتدار کے آخری مراحل میں ہے اور اس کا موقف یہ ہے کہ اس نے ملک میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کر کے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تقریباً یقینی بنا دیا ہے اور اس کیفیت میں جب ملک کے اندر ایک بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت ہو تو اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا بریک ڈاؤن بہت سے خدشات اور خطرات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کیونکہ وفاقی وزیر اویس خان لغاری نے چند ہفتے پہلے ایک انٹرویو میں اس امر کی نشاندہی بھی کی تھی کہ طلب اور پیداوار میں خود کفیل ہونے کے باوجود اگر کوئی انجینئر چاہے تو وہ بھی لوڈشیڈنگ کا باعث بن سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے اس خدشہ کو بھی اہمیت مل رہی ہے اور تحقیقاتی عمل جاری ہے۔
ملک کے اندر سیاسی محاذ پر پیدا شدہ صورتحال خصوصاً اداروں کے درمیان رونما نفسیاتی کیفیت نے ہمیں یہاں لاکھڑا کیا ہے کہ اس طرح کی کسی صورتحال اور بحران میں ملک افواہوں کی زد میں آ جاتا ہے اور خصوصاً اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے اس موقف کے جواب میں کہ ہم نے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کر دیا ہے، خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے اور لوڈشیڈنگ کو ہی ایک بڑے ایشو کے طور پر کھڑا کرنے کا پروگرام ہے۔ کراچی کے اندر اس حوالے سے بحرانی کیفیت کئی ہفتوں سے جاری ہے جبکہ دیگر صوبوں میں بھی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں اور ایسی خبریں پہلے سے موجود ہیں کہ حکومت کے بجلی کے پیداوار کے حوالے سے دعوؤں اور خصوصاً لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے واضح اعلان کے بعد حکومت مخالفین اسے غلط ثابت کرنے کیلئے کوشاں ہیں لہٰذا حکومت کو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ہونے والے اس بڑے بریک ڈاؤن کی ذمہ داری کے تعین کے ساتھ اپنی حکومت کے دور میں ہونے والے اضافہ پر ایک واضح موقف اختیار کرنا پڑے گا۔
اس سے پہلے خود وفاقی وزیر اویس خان لغاری بھی باقاعدہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ یقینی بنا دیا گیا ہے اور اب صرف لوڈشیڈنگ ان علاقوں میں ہو گی جہاں سے بجلی کے بلوں کی ادائیگی ممکن نہیں ہو سکتی لیکن اب عملاً صورتحال اس سے مختلف بنتی نظر آ رہی ہے اور عملاً کہا جا سکتا ہے کہ بجلی کے اس بریک ڈاؤن کی وجہ کچھ بھی ہو، البتہ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا نظام قابل اعتبار نہیں اس میں کہیں بھی خرابی پیدا ہو سکتی یا پیدا کی جا سکتی ہے ، بجلی کے طویل بریک ڈاؤن کی جو بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے اور یہ بتانا حکومت کے خود اپنے مفاد میں ہے اسکی تحقیقات پر قوم کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ جونہی حکومت کے خاتمہ کا وقت قریب آیا ہے بدانتظامی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ کے وقت بھی اس طرح کے طویل بریک ڈاؤن ہوئے تھے اور مسلم لیگ ق کی حکومت کے خاتمے کے وقت بھی لوڈشیڈنگ اور آٹے کا بحران ایک ہی وقت میں آئے تھے اور اب جب مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونے والی ہے تو ایک مرتبہ پھر وہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے ابھی معاملات حکومت کے کنٹرول میں ہیں تو ذمہ داری بھی ان پر ہی آئے گی لہٰذا فالٹ تکنیکی ، سیاسی یا انتظامی جو کچھ ہے قوم کے سامنے رکھا جائے ورنہ اس حوالے سے کسی قسم کا صرف نظر اسے اس صورتحال سے دوچار کر دے گا جس صورتحال سے خود مسلم لیگ ن کی قیادت کو دوبار ماضی میں بعض اہم معاملات پر قوم کو اعتماد میں لینے سے پہلو تہی کی وجہ سے آج اسے جوابدہ ہونا پڑ رہا ہے، آج اس بڑے بریک ڈاؤن کی وجوہات سے آگاہی کا عمل انہیں آنے والے کل کی ہنگامی صورتحال سے نبرد آزما ہونے میں معاون بن سکے گا۔