لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان میں کسی کو غدار کہنا نہایت آسان ہے اور اسی بنا پر ملک کی تاریخ میں مختلف ادوار میں غداری کے مقدمے بھی قائم ہوئے۔
سب سے پہلا مقدمہ شاعر فیض احمد فیض کے خلاف 1951 میں درج کیا گیا، راولپنڈی سازش کیس میں فیض پر الزام تھا کہ انہوں نے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تھی، مقدمہ چلا اور انہیں قید کی سزا ہوئی اور وہ چار سال جیل میں رہے۔
نینشل عوامی پارٹی کے صدر عبدالولی خان پر 1975 میں غداری کا مقدمہ چلا، پشتون رہنما ولی خان اور نیشنل عوامی پارٹی کے 51 رہنماؤں پر پیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد شیرپاؤ کے قتل کا الزام لگایا گیا۔ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انکی پارٹی آزاد پختونستان اور گریٹر بلوچستان کے لئے کام کر رہی تھی۔ انہیں گرفتار کر لیا گیا اور وہ 1978 تک جیل میں رہے جب جنرل ضیا الحق نے انہیں معاف کر کے رہائی دی۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی پر 1992 میں نواز شریف نے غداری کا مقدمہ قائم کیا، انہوں نے ایک انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ایک نظم چھاپی جسے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے حکومت پر تنقید قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کیا لیکن کارروائی کے آغاز سے تین دن پہلے مقدمہ واپس لے لیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی پر 2003 میں ایک حاضر سروس فوجی افسر کا خط شائع کرنے پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ خط میں افسر نے جنرل پرویز مشرف کے امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حمایت کرنے کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ جاوید ہاشمی کو 23 سال قید کی سزا دی گئی لیکن 3 سال 9 ماہ بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
سابق صدر اور فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف پر 2014 میں غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا، ان پر 3 نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذکرنے اور آئین کو معطل کرنے پر مقدمہ قائم کیا گیا۔ وہ پہلے فوجی سربراہ ہیں جن کے خلاف پاکستان میں غداری کا مقدمہ درج کیا گیا یہ مقدمہ اب بھی زیر التوا ہے۔
اب سابق وزیراعظم نواز شریف انگریزی روزنامے ڈان میں 12 مئی کو شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو کی وجہ سے غداری کے الزامات کی زد پر ہیں۔