لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی افواج کی فائرنگ کے نتیجے میں بچوں ، خاتون سمیت 6 افراد کی شہادت کا واقعہ ظاہر کر رہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نئی صورتحال طاری کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کیوں ہے اس کے مقاصد کیا ہیں؟
ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے آئے روز فائرنگ کے واقعات اس مائنڈ سیٹ کے تحت ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ایک مکروہ اور شرمناک کھیل کھیل رہا ہے۔ بھارت کا مقصدانسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے واقعات سے توجہ ہٹانے کے لئے دنیا کو یہ باور کرانا کہ خطے میں اصل مسئلہ کشمیر اور کشمیر کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا عمل نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی ہے اور سرحدی کشیدگی کے جواز کے لئے وہ فائرنگ کے واقعات میں بے گناہ شہریوں کو شہید کر رہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مذموم اور بھیانک عمل خود اس کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔
گو کہ ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کے واقعات کا جواب سکیورٹی ادارے بھر پور انداز میں دیتے ہیں اور دوسری سائیڈ پر ہونے والے مالی و جانی نقصان پر بھارتی میڈیا بھی سر پیٹتا نظر آتا ہے اور گزشتہ روز کے واقعہ کے ردعمل میں بھی بھارت کے دو فوجیوں سمیت7 ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ دو نیو کلیئر پاورز کے درمیان ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کا عمل کسی نئی اور ہنگامی صورتحال کا پیشہ خیمہ بھی بن سکتا ہے جو خود عالمی برادری کے لئے چیلنج ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ عالمی برادری جنوبی ایشیا میں سلگتے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے الٹا بھارت کو بڑھاوا دیتی نظر آتی ہے۔
جہاں تک بھارت کے جارحانہ طرز عمل کے جواب میں پاکستانی حکمت عملی کا سوال ہے تو حقیقت یہ ہے کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے باتوں سے ماننے والا نہیں۔ بارڈر کی حد تک تو ہماری فورسز جارحانہ طرز عمل کا جواب دیتی نظر آتی ہیں مگر یہ معاملہ خود حکومتی سطح اور خارجہ آفس تک سنجیدگی کا متقاضی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ بھارت کاجارحانہ طرز عمل خود اس کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے اور پاکستان کے لئے اس پر زیادہ دیر خاموش رہنا مشکل ہے۔ ایک طرف امریکہ اور عالمی طاقتیں باہمی ایشوز کے حل کیلئے مذاکراتی عمل کے آپشنز کو بروئے کار لانے پر زور دیتی ہیں تو دوسری جانب کشمیر جیسے سلگتے ایشو پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کیلئے اپنا کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور اس کی افواج مقبوضہ وادی کے اندر وحشیانہ مظالم کے ذریعہ کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں اور باوجود ظلم و جبر اور بربریت کے کشمیر میں بغاوت کا سماں جاری ہے۔
کشمیری یہاں موجود بھارتی افواج سے نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ مقبوضہ وادی کے اندر شہادتوں کے واقعات نہ ہوں اور پیلٹ گنز کے استعمال کے نتیجہ میں کشمیری نوجوان اور بچے اندھے نہ ہوں لیکن افسوس عالمی برادری کی آنکھیں کھل نہیں پا رہیں۔ بھارت کا جارحانہ طرز عمل اور فائرنگ کے واقعات پاکستان کی حکومت اہل سیاست کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس طرز عمل کے جواب میں پاکستان کے اندر بھی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت تھی لیکن وہ نظر نہیں آرہی ۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کے مکروہ اور مذموم عزئم سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان اور اس کے مفادات کو ترجیح دینی چاہئے، دشمن کے مکروہ عزائم کے جواب میں قوم کی حیثیت ایک چٹان کی مانند ہونی چاہئے۔