اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے 35 ارب روپے منی لانڈرنگ کیس میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی سندھ میں ہی کام کرے گی، سیکورٹی رینجرز کے حوالے کرینگے، 15 روزہ رپورٹ فراہم کی جائے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اومنی گروپ کے دفتر سے دبئی کاروبار کی تفصیلات ملیں، جن کے مطابق جعلی اکاؤنٹس سے پیسے نکال کر غیرملکی کرنسی میں تبدیل کر کے دبئی اور بعد میں برطانیہ اور فرانس منتقل ہوئی، منی لانڈرنگ کے ٹھوس شواہد ہیں۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا کہ بیرون ممالک سے رقوم واپسی سے متعلق معاہدوں کو دیکھ رہیں گے، نجی شعبے سے ماہرین کی خدمات نہیں لے سکتے۔ بشیر میمن نے کہا کہ وہ ایف آئی اے سائبر کرائمز سے متعلق معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 35 ارب روپے کا فراڈ ہوا ہے، اس بارے میں سچ جاننا چاہتے ہیں، اس معاملے پر جے آئی ٹی کیوں نہیں بن سکتی؟۔
ڈی جی ایف آئی اے نے تجویز دی کہ جے آئی ٹی میں ایف آئی اے کے ساتھ نیب، ایس ای سی پی،اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں کو شامل کیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خفیہ اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی کیا ضرورت ہے، ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ خفیہ اداروں کے پاس بہترین فرانزک ماہر ہیں اور کالز کا ڈیٹا مل جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے اراکین کا تعین عدالت کرے گی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جے آئی ٹی میں متعصب آدمی نہیں ہونا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمے میں کہا کہ آپ کو نجف کلی مرزا پر اعتراض ہے ؟ وہ اس میں شامل نہیں ہوگا، مرزا گیا اور ساتھ میں صاحبہ بھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور فریال تالپور کو تو جے آئی ٹی پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، الزامات سے بری، کلین چٹ لے کردوبارہ ملک کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور انکے بیٹے عبدالغنی مجید کو ہر دفعہ تفتیش کیلئے بلایا جائے، اکاؤنٹنگ آفیسرز کو بلا سکتے ہیں، پگڑیاں اچھالنے کی اجازت نہیں دیں گے، ضروری نہیں کہ روزانہ بلا کر اخبار کو خبریں دی جائیں۔
ڈی جی ایف آئی اے بشیرمیمن نے سندھ میں تحقیقات پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عام تاثر ہے کہ سندھ میں وڈیرا راج ہے، اسلام آباد میں تحقیقات کی اجازت دی جائے جسے مسترد کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی کی سیکورٹی رینجرز کے حوالے کریں گے، جے آئی ٹی سندھ میں ہی کام کرے گی اور 15 روزہ رپورٹ سپریم کورٹ کو بھجوائے گی۔