لاہور: ( روزنامہ دنیا) پروگرام محاذ کے میزبان وجاہت سعید خان نے کہا ہے کہ 1992میں مکمل ہونیوالے وزیراعظم ہاؤس کے پہلے مکین میاں نواز شریف تھے، ان کے بعد بینظیر بھٹو نئے وزیراعظم ہاؤس کی مکین بنیں۔ پرویز مشرف نے وزیراعظم ہائوس کو اپنا کیمپ آفس بنایا، بعدازاں شوکت عزیز، چودھری شجاعت، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف وزیراعظم ہاؤس کے مکین ٹھہرے۔ آخری مکین نواز شریف تھے، کیونکہ عمران خان نے یہاں رہنے سے انکار کر دیا ہے۔ نگران وزیراعظم ملک معراج خالد نے بھی یہاں قیام سے انکار کر دیا تھا، شاہد خاقان عباسی بھی یہاں کم ہی آتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فواد حسن فواد کو ڈپٹی وزیراعظم کہا جاتا ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کا ایک کمرہ جوکہ ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کا تھا، ن لیگ کے دور میں مریم نواز کا میڈیا سیل بنا رہا جو کہ آج خالی ہے۔
وزیراعظم ہاؤس کی ڈیکوریشن کے قیمتی سامان میں ہاتھی کے دانت بھی شامل ہیں، شاندار تزئین و آرائش اور قیمتی آرائشی سامان کی وجہ سے وزیر اعظم ہاؤس پاکستان کا حصہ نہیں لگتا۔ وزیراعظم ہاؤس میں مہمانوں کیلئے تین طرح کے مہمان خانے ہیں، شاندار ڈرائنگ روم کے علاوہ کانفرنس روم جہاں اہم اجلاس ہوتے تھے وہاں ہونیوالی حساس گفتگو کمرے تک ہی رہتی مگر یہیں سے ڈان لیکس باہر نکلی۔ جس کا پاکستان کو کافی نقصان ہوا۔ 48 مہینوں میں نواز شریف کی زیر صدارت صرف 39 کابینہ کے اجلاس ہوئے۔ اجلاس کے کمرے میں جیمرز نصب ہیں۔ کابینہ اجلاس کے نئے شاندار کمرے کی کرسیوں کا ابھی تک پلاسٹک تک نہیں اترا۔
وزیراعظم ہاؤس کا کچن کا فی بڑا ہے ، خانسامے لفٹ کے ذریعے آتے جاتے ہیں۔ ایک خانسامے نے بتایا کہ نواز شریف مٹن اور دیسی مرغی زیادہ استعمال کرتے تھے مگر دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے کچھ نہیں کھاتے رات کا کھانا گھر جا کر کھاتے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس میں تمام وزرائے اعظم کی تصاویر آویزاں ہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اپنی تصویر نہیں لگائیں گے۔ عمران خان تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں، مگر تبدیلی کہاں سے شروع ہو نی ہے۔ واحد تبدیلی یہ آئی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی لگژری مرسیڈیز گاڑیاں، بھینسیں نیلام ہونگی۔ لگژری گاڑیوں میں ٹی وی ، فریج کی سہولت تک موجود ہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس میں مختلف قسم کے جانور اورپرندے جن میں بھینسیں، خرگوش اورمور وغیرہ شامل ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کا ڈیزائن نواز شریف نے تیار نہیں کیا تھا بلکہ ان سے پہلے ہی تیار کر دیا تھا۔