لاہور: (سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں قومی سلامتی کے معاملات خصوصاً بھارت کے جارحانہ عزائم سمیت خطہ کی صورتحال پر بات چیت ہوئی۔ مذکورہ ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی موجود تھے۔ موجودہ صورتحال میں جب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی جانب سے کھلے طور پر پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا اظہار کیا جا رہا ہے اور خصوصاً بھارتی آرمی چیف بپن راوت کھلے طور پر پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کی بات کر رہے ہیں۔ اس ملاقات کی ٹائمنگ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جب بھی پاکستان کے خلاف بھارت نے جارحانہ طرز عمل اختیار کیا تو پاکستانی قوم کے اندر اپنی بقا سلامتی اور پاک سرزمین کے تحفظ کیلئے غیر معمولی جذبہ اور ولولہ دیکھنے میں آیا اور قوم کے عام طبقات اور سیاسی قوتیں کسی بھی جارحیت کے جواب میں اپنی بہادر مسلح افواج کی پشت پر کھڑے ہونے کا عزم ظاہر کرتی نظر آئیں۔ نئی پیدا شدہ صورتحال میں ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ قومی سلامتی اور خصوصاً بیرونی محاذ پر ہمیں کیا چیلنجز درپیش ہیں۔ بھارت کے جارحانہ عزائم سے نمٹنے کیلئے ہماری حکمت عملی اور پوزیشن کیا ہے اور آج کی صورتحال میں ہماری منتخب اور عسکری قیادت کی ملاقات کی ٹائمنگ کی کیا اہمیت ہے۔ بلاشبہ پاکستان جیسا ملک جہاں کوئی پتہ بھی ہوا سے کھڑک جائے فوری سول ملٹری تعلقات میں تلخی کی ہوا اڑا دی جاتی ہے وہاں اس طرح کی اعلیٰ سول ملٹری قیادتوں کی ملاقاتیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں اور ان کے پیغامات بھی لوگ اور سمجھ بوجھ رکھنے والے طبقات اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے رہتے ہیں۔
گزشتہ حکومت کے آخری دو سالوں میں اس طرح کی ملاقاتیں انتہائی کم ہو گئی تھیں مگر نئی حکومت کے آنے کے بعد ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس سے تاثر زور پکڑ گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت اور ملٹری کی اعلیٰ قیادت کئی معاملات پر یک جان دو قالب کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان سے تعلقات، افغانستان کے اندر امن اور طالبان سے مذاکرات کا معاملہ بھی یقیناً مکمل ہم آہنگی سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں چل رہا ہے۔ تیسرا اہم نکتہ امریکہ سے روزانہ بنتے اور بگڑتے تعلقات پر بھی نئی حکومت اور فوج شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ چین سے تعلقات اور سی پیک پر تو نہ صرف حکومت اور فوج بلکہ اپوزیشن بھی اعلانیہ ہم نوا اور یکسو ہے۔ یقیناً اس ملاقات میں اہم نکتہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہوگی۔ دنیا نے دیکھا کہ بھارتی سیاست آج بھی پاکستان مخالف جذبات کی رو میں بہہ رہی ہے اور ہندوستانی فوج بھی پاکستان سے تعلقات کے سلسلے میں اپنا ایک اثر رکھتی ہے اور بوقت ضرورت دو طرفہ سیاسی معاملات میں کود پڑتی ہے۔
اب پاکستانی سول ملٹری قیادت کو واقعتاً سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا ورنہ مکار دشمن ملک کی سلامتی کیلئے سنگین چیلنج کھڑے کر دے گا۔ ہندوستان میں انتخابات کا سال شروع ہو چکا ہے اور کوئی بھی شرارت مودی حکومت کو ریلیف دے گی۔ ہندوستانی داخلی سیاسی صورتحال میں نریندر مودی ایک چور اور لٹیرے وزیراعظم کے طور پر گلی کوچوں میں زیر بحث ہیں اور مودی اس دباؤ سے نکلنے کیلئے انتہا پسندانہ ماحول کو ہوا دینے کی کوشش شروع کر چکے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنا ہے تو کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بنیاد بنا کر عالمی رائے عامہ بیدار کی جائے اور داخلی سیاسی صورتحال میں سیاسی بحران کو ختم کر کے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے کہ کیسے ہندوستان نے امن کی خواہش کو یکطرفہ روند ڈالا۔ ہمارا داخلی اتحاد ہی ہماری بقا کی ضمانت ہے کیونکہ نیو کلیئر طاقت بننے کے بعد جنگ ایک دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے مگر ہوش مند قیادت اس کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ سول عسکری ملاقات کی اصل اہمیت بھی پاک بھارت تلخ تعلقات کے پس منظر میں ہے پاکستان بھی جواباً وہی سخت طرز عمل اپنائے گا جو نریندر مودی حکومت نے اپنا رکھا ہے۔