لاہور: (روزنامہ دنیا) تحریک انصاف کی حکومت ایک ماہ قبل اقتدار میں آنے کے وقت ہی یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ آئی ایم ایف سے پیکیج لینا ہے لیکن قوم کو یہ حقیقت بتانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ متعدد بار یہ کہا جاتا رہا کہ ہم اپنے دوست ممالک، سعودی عرب، چین کے پاس جا رہے ہیں اور دیگر ذرائع بھی استعمال کر رہے ہیں، اگر ہمیں وہاں سے امداد مل گئی تو ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائینگے۔ یہ وہی جملے ہیں جو 2008 میں دہرائے گئے تھے حالانکہ حکومت کو یہ پتہ تھا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا متبادل نہ تو چین ہے اور نہ ہی سعودی عرب۔ وزیرخزانہ نے کچھ دن قبل یہ کہا تھا کہ عالمی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضے لیں گے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو سکوک بانڈز اور انٹرنیشنل بانڈز بیچیں گے جس سے ہمیں پیسہ مل جائے گا لیکن کیا یہ بنیادی حقیقت نہیں ہے کہ ان سب اداروں کے پاس جانے کیلئے پہلے آئی ایم ایف سے اپنی پالیسیوں کی توثیق کرانی ہوتی ہے اور اگر آئی ایم ایف توثیق نہیں کرتا تو انٹرنیشنل بانڈز میں مشکل آئے گی اور کوئی بھی بینک آپ کو قرضے نہیں دے گا۔
دوسری طرف صرف ایک مہینے میں زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کم ہو چکے ہیں۔ حکومت نے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کی کیونکہ ان کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا ارادہ تھا۔ آئی ایم ایف کی جو بنیادی شرائط ہوتی ہیں ان پر حکومت نے پہلے ہی عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ معیشت کو استحکام دیں اور شرح نمو کو سست کریں تو حکومت نے انہیں بتایا کہ اس سال کا شرح نمو کا ہدف کم اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے ترقیاتی اخراجات میں 75 ارب روپے کی کٹوتی کر دی ہے۔ گیس کے نرخ میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، سٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کر دیا اور استحکام کی بات کی جو آئی ایم ایف 1993 سے کرتا چلا آرہا ہے۔ روپے کی قدر بھی گرنے دی گئی اور اب بجلی اور پٹرولیم کے نرخ بھی بڑھانے کی تیاری ہے۔ اس کے علاوہ سپلیمنٹری بجٹ میں انہوں نے 83 ارب کے نئے ٹیکس لگائے لیکن جو گزشتہ حکومت نے پیسوں کاہدف رکھا تھا اس میں 37 ارب کی کٹوتی کردی اور اس طرح 120 ارب روپے کا جھٹکا دے دیا۔ جیسا کہ پہلے بھی یہ کہتا رہا ہوں کہ لوٹی ہوئی دولت کا بڑا حصہ 3 سال سے پہلے آنے کا امکان نہیں ہے جس کا حکومت کو بھی پتہ ہے اسی لئے حکومت نے سپلیمنٹری بجٹ میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ یہ محض سیاسی نعرے ہیں۔
دوسرا مفروضہ جس پر یہ حکومت معیشت کو چلا رہی ہے کہ سمندر پار پاکستانی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرینگے، ایسا کچھ نہیں ہوگا وہ مہنگی شرح منافع پر بانڈز خرید لیں گے لیکن سرمایہ کاری نہیں کرینگے۔ اگر حکومت چاہے کہ جن لوگوں نے ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ نہیں اٹھایا اور جس کے حوالے سے ایف بی آر کے چیئرمین نے کہا تھا کہ اگلے روز سے ہم ٹیکس وصول کرنا شروع کر دینگے، ان لوگوں کی پراپرٹی، بینک ڈیپازٹس، کاروں، قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود ہیں۔ میں یہ ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اگر حکومت چاہے تو ان لوگوں سے جن کے پاس ناجائز پیسہ ہے، 5 سے 6 ماہ میں ایک ہزار 5 سو ارب روپے کی اضافی آمدنی حکومت کو ہو سکتی ہے، جس سے ایک ڈیم بن سکتا ہے اور تعلیم اور صحت کی رقم بڑھا سکتے ہیں اور بجلی، پٹرول کے نرخ بڑھانے کی بجائے کم کر سکتے ہیں۔ یہ وہ تاریخی فیصلہ تھا جو حکومت کرتی تو اب تک معیشت کا حلیہ بدلنا شرو ع ہو جاتا۔ آج جو روپے کیساتھ تماشا ہوا اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہم اپنے ملک کیساتھ کیا کر رہے ہیں۔ 5 جولائی 2017 کو ڈالر تقریباً 105 روپے کا تھا اور ایک سال 2 مہینے میں یہ اگر 133 روپے تک پہنچ گیا ہے تو کیا کسی کو اس کے تباہ کن اثرات کا اندازہ ہے ؟ 60 ارب ڈالر کی درآمدات ہیں وہ ملکی کرنسی میں مہنگی ہونگی، حکومت کو ڈیوٹی کی شکل میں آمدنی تو ہو گی مگرعوام کیلئے اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھیں گے اور مہنگائی کا طوفان آئیگا۔ صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھے گی، جس سے برآمدات پر اثر پڑے گا، پھر 100 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا ملکی کرنسی میں حجم بڑھے گا۔ ہرسال 8 سے 10 ارب ڈالر سود کی مد میں دینے ہوتے ہیں تو اس کیلئے بجٹ میں زیادہ رقم مختص کرنا پڑے گی، جس سے بجٹ خسارہ بڑھے گا۔ یہ سب چیزیں معاشی اشاریوں کو خراب کرینگی اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہوگا۔
موجود ہ حکومت اسی راہ پر چل نکلی ہے جس پر گزشتہ 30 سال سے معیشت چلائی جارہی ہے ،یعنی 1988 سے اب تک آئی ایم ایف کے 12 پروگرام ہوگئے، جس کی وجہ سے پاکستان کی شرح نمو بنگلہ دیش سے کم رہی۔ جس زمانے میں سی پیک آیا اس وقت بھی بنگلہ دیش سے کم تھی اور دنیا نے کہہ دیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی جوشرح نمو چھوڑ گئے تھے ،دوسال تک شرح نمو اس سے کم رہے گی اور عالمی اداروں ،اقوام متحدہ اور پاکستان نے بھی اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ اگر شرح نمو 8 فیصد سے کم رہے تو ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے 2060 تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ اسوقت 2 کروڑ 30 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے اور چاروں صوبوں نے اس مد میں 2200 ارب روپے کم مختص کئے ہیں ۔اس کے باوجود سرکلر ڈیٹ ملا کربجٹ خسارہ 8 فیصد ہے اور اگر یہ 2200 ارب روپے مختص کریں تو بجٹ خسارہ 13 فیصد ہو جاتاہے تو ایسے میں قوم کو سوچنا ہے کہ ان قرضوں کی شرائط اور پالیسی سے کیامعیشت چلے گی ۔ایک اور اہم بات ریکارڈ پر کہہ رہا ہوں کہ 26 ستمبر کو فرینڈ ز آف پاکستان کاجو معاہدہ ہوا تھا اس سے 3 سال قبل یعنی 2006 سے 2008 تک دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کو 15.6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا ۔اس معاہدے کے بعد اگلے تین سال میں پاکستان کو اسی جنگ میں 46 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔یعنی 31 ارب ڈالر کااضافی نقصان ہوا اور 15 سے 20 شرائط پر 6.7 ارب ڈالر کا قرضہ ملا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ سے منظوری لئے بغیر کیری لوگر بل کیا گیا جس کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے اور پھر 19 اگست 2013 کو اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو جو خط لکھا اس میں فرینڈز آف پاکستان سے لئے گئے قرضے کی ادائیگی کیلئے قرض لینے کیلئے لکھا گیا تھا۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ چاروں صوبوں نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اتفاق کیا ہے کہ بجلی، گیس کے نرخ تین سال تک بڑھائیں گے اور پی آئی اے ،سٹیل ملک کی نجکاری کرینگے حالانکہ ایسی کوئی منظوری نہیں لی گئی تھی تاہم تمام صوبے اس پر عملدرآمد کرتے رہے۔
سٹیٹ بینک کی نومبر 2016 کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2017 میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 0.5 فیصد سے زیادہ رہے گا یعنی ڈیڑھ ارب ڈالرسے زیادہ۔ حالانکہ اس وقت یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ 10 سے 12 ارب ڈالر تک جارہا ہے ۔ آئی ایم ایف نے بھی کم بتایا اور سٹیٹ بینک نے بھی جانتے ہوئے کم بتایا تاکہ پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو۔ مذکورہ تین اقدام سے ہم آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس گئے جو امریکہ کا مقصد تھا اور جس میں ہم نے ان کی مدد کی ۔اب جو معاہدہ ہوا ہے وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ، فرینڈز آف پاکستان،کیری لوگر بل اوربغیر منظوری لئے خط اور نومبر 2016 کی سٹیٹ بینک کی رپورٹ نے معیشت کو تباہ کیا ہے اور اسی سے ریکوری اور صحیح حقیقت کا پتہ چلے گا کیونکہ یہ سب ایک گریٹ گیم کے مقاصدکیلئے کیا گیا ہے ،اس کے علاوہ گزشتہ 3 سال سے برآمدات میں لگاتار کمی آئی ہے اس سے پہلے ایساکبھی نہیں ہوا تھا ۔ جب یہ برآمدات کم ہورہی تھیں تو حکومت ،اپوزیشن اور سٹیٹ بینک سمیت کسی نے شورنہیں مچایا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے برآمدات میں کمی آرہی ہے اور 2018 میں ہدف سے 11 ارب ڈالر کم رہیں۔ اسطرح ہم نے جان بوجھ کر کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بحران کو پیدا ہونے دیا اور اس میں پھنسے ۔یہ کرنے سے کس کے مفادات کا سودا کیا گیا ،کس نے فائدہ اٹھایا ،امریکہ کا کیا فائدہ ہوا ،قوم کا کیا نقصان ہوا ۔اس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔موجودہ معاہدے کی شرائط کے تحت آئندہ تین ماہ میں مہنگائی بڑھے گی ،شرح نمو سست رہے گی ،کرنٹ اکائونٹ خسارہ مزید بڑھے گا ،قرضوں کا حجم بڑھے گا اور آئندہ تین سال میں قرضوں کو محدود کرنے کی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی ۔سپریم کورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 15 ارب ڈالرملک سے ہر سال باہر جا رہا ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ لوگ چوری اور جائز پیسے سے ڈالر خرید رہے ہیں جس کیوجہ سے ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے اور اس کو فارن کرنسی اکائونٹ میں جمع کرتے ہیں اور بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔کیا حکومت دو لائن کے یہ احکامات نہیں دے سکتی کہ اوپن مارکیٹ سے جو ڈالر خرید رہے ہیں ،چاہے وہ جائز پیسوں سے ہی کیوں نہ ہو،تعلیم اورعلاج کیلئے تو باہر بھیج سکتے ہیں مگر شہریت ،پراپرٹی لینے اور سرمایہ کرنے کیلئے نہیں بھیج سکتے ۔یہ قانون پہلے دن ہی آنا چاہیے تھا۔
اسی طرح جوٹیکس ایمنسٹی سکیم آئی تھی اس میں فیڈریشن نے کہا تھا کہ باہر پیسہ رکھنا مشکل ہے ،ہمیں پاکستان لانے کی اجازت دیں مگر کسی نے پراسرار طو ر پر یہ شق سکیم میں ڈال دی کہ چوری کے پیسے کو باہر رکھیں اور ہمیں صرف 5 فیصد دے دیں تو آپ کو 5 فیصد چاہیے تھا یا پوری رقم ،اگر وہ رقم لاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔ وزیرخزانہ شمشاد اختر نے پارلیمنٹ کے پاس کئے ہوئے قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک مہینہ بڑھا دیا تو یہ اب عمران خان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانون کو پارلیمنٹ میں لائیں اور سپریم کورٹ کو بھی بتائیں کہ ہم نے باہر پیسہ رکھنے کی اجازت کیوں دی اور اس پر کام کریں اور 15 ارب ڈالر بیرون ملک منتقلی کو روکیں اور اثاثوں پر 15 سو ارب روپے ٹیکس کی مد میں مل سکتے ہیں ۔ٹیکسوں کی چوری ،قومی بچت ،ملکی سرمایہ کاری پر ٹیکسوں کی مدمیں ہم 12 ہزار ارب روپے کم وصول کررہے ہیں ۔یوں سب کچھ وہی ہورہا ہے جو پہلے ہورہا تھا ۔2008 میں جب ہم نے فرینڈز آف پاکستان کا معاہدہ کیا تھااس وقت شمشاداختر سٹیٹ بینک کی گورنر تھیں اور انہوں نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے تھے ،اس سے اگلے سال ہماری شرح نمو 0.4 فیصد تھی جو پاکستان کی تاریخ کی کم ترین شرح نمو ہے ۔ نگران حکومت میں پھر ان کو لایا گیا تو انہوں نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بنیاد ڈال دی اور شرائط بھی پوری کرنی شروع کر دیں ۔ جبکہ 2015 سے 2017 تک برآمدات میں کمی ہوتی رہی اور 2018 میں 11 ارب ڈالر کم رہیں ، اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے یہ پالیسی بنائی کہ ٹیکسوں کی چوری ہونے دی جائے ،مراعات دیتے چلے جائیں ،اس سے جو نقصان ہوا اس کیلئے بجلی گیس کے نرخ بڑھا دئیے ،اس سے صنعتوں کی لاگت بڑھی اور اس کے نتیجے میں برآمدات میں کمی آئی ۔ہمیں ڈالرچاہیے تھے تو ہم نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے تحت چوری شدہ پیسہ باہر رکھنے کی اجازت دے کر 5 فیصد وصول کرلیا ۔اس طرح کچھ پراپرٹی کے کاروبار میں ،کچھ سٹاک ایکسچینج میں چلے گئے تو کچھ کاروبار کرنے لگے اور یوں اصل معیشت پر کام ہی نہیں ہو رہا ۔اگر حکومت ان تمام قوانین میں تبدیلی کرتی ہے تو پھر ایک سال میں آ ئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر آجائے اور پھر ان سے آزاد ہو کر پالیسیاں بنائے ،جس سے معیشت میں تیزی سے ترقی ،عوام میں خوشحالی آئے گی لیکن اگر حکومت پالیسیاں تبدیل نہیں کرتی تو 2008، 2013، 2018 اور 2023 میں زیادہ فرق نہیں ہو گا اور اس سے پاکستان کی سلامتی ،معیشت کے لئے خطرات ہونگے ،عوام کی تکالیف بڑھیں گی اور ہم مزید قرضوں کی دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔
تحریر: ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی