ملکی سیاست میں مائنس شریف خاندان فارمولا کارگر ہو سکے گا ؟

Last Updated On 26 November,2018 09:23 am

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) تحریک انصاف کی حکومت سو دن پورے کر رہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعت بھرپور پارلیمانی طاقت ہونے کے باوجود سیاسی محاذ پر دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے اور ان کی جانب سے اس موقف کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے وعدوں اور مینڈیٹ کے مطابق ڈلیور کرے اور ہم نہ تو حکومت کو گرانا چاہتے ہیں اور نہ ہی غیر مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو اس نے سیاسی اور عوامی محاذ پر ہمیشہ جارحانہ سیاسی کردار کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی میں حکومت میں رہنے کے باوجود اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتی نظر آتی تھی۔

نواز شریف کے بیانیہ کے تحت سول بالادستی کی تحریک کیوں ماند پڑ گئی اور آخر کیوں وہ تحریک انصاف کی حکومت کو سیاسی رواداری کے نام پر برداشت کر رہے ہیں ؟ یہ کسی طے شدہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے یا اپنے خلاف ہونے والے اقدامات ’ مقدمات اور احتسابی مہم کا شاخسانہ۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز تمام تر حکومتی ہتھکنڈوں کا نشانہ ہے۔ در حقیقت انتخابات سے بھی کہیں پہلے طاقتور حلقوں نے کہیں نہ کہیں طے کر لیا تھا کہ برسراقتدار جماعت کو گھر بھیج دیا جائے اور ممکن حد تک اس کا سیاسی کردار بھی۔ کام نواز شریف کی نا اہلی سے شروع ہوا’ بعد میں شاہد خاقان عباسی کی حکومت عملاً بے دست و پا بن گئی اور جس نے مزاحمت کی اس سے جو توقع تھی وہ پوری نہ ہو سکی۔ یہ الیکشن کا سال تھا اور ہر طرح کے ہتھکنڈوں سے ن لیگ کو ہر سطح پر باور کرایا جا رہا تھا کہ اقتدار سے نکالے گئے اقتدار میں واپس نہیں لائے جاتے۔ ن لیگ کی ہر سطح کی قیادت اپنے خلاف ہونے والے تمام اقدامات کو سمجھ گئی تھی۔ مگر عملاً اس کے آگے بند نہ باندھ سکی تھی۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ن لیگ بیک وقت اقتدار کی راہ کی مسافر بھی تھی اور نواز شریف کے ساتھ مل کر مزاحمت بھی کرتی تھی۔

مسلم لیگ کی سیاسی تاریخ میں ہم نے پہلی بار تبدیلی دیکھی وہ تھا مسلم لیگ نواز کا اقتدار سے محرومی کے بعد بھی بھرپور انداز میں سیاسی میدان کے اندر قائم اور دائم رہنا۔ شہباز شریف کی گرفتاری نے اس بحران کو بے نقاب کر دیا۔ ن لیگ ایک بھرپور پارلیمانی طاقت کے طور پر تو کھڑی ہے مگر اس کے پاس متبادل قیادت کی عدم موجودگی ہے۔ پیپلز پارٹی اس صورتحال کو بھانپ چکی ہے اور وہ قومی منظر نامے میں بلاول بھٹو کو متبادل قیادت کے طور پر پیش کر رہی ہے اور بلاول انتخابات کے بعد خود بھی بڑی بردباری اور تحمل مزاجی سے اپنے اس کردار کو سمجھ چکے ہیں۔ شاید یہی بڑی وجہ ہے جو دونوں جماعتوں کو کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی راہ میں فراہم ہے۔ اب دونوں بڑی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ سیاست کو محض حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے تو پھر نتائج بھی حالات خود طے کرینگے خواہ ان کے سیاسی اثرات کچھ بھی ہوں۔ موجودہ حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام رہتی ہے تو سیاسی خلا کو کون پورا کریگا۔ عمران خان حکومت وقت کے سربراہ ہیں لہٰذا انہیں بھی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی اپوزیشن کا پارلیمانی جینے کا حق بھی محفوظ رہے ’ ملک میں احتساب بھی ہو مگر شفاف اور بلا امتیاز احتساب کے لئے قانون سازی بھی ہو۔ شاید یہی راستہ ہے جو ملک کو سیاسی استحکام کی طرف لے کر جائے گا۔