لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) افغان طالبان سے مفاہمتی عمل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وزیراعظم عمران خان کو مکتوب اور امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد کی پاکستان آمد اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے مذاکراتی عمل ظاہر کر رہا ہے کہ امریکہ کو بالآخر اس نتیجہ پر آنا پڑگیا جو تقریباً 17 سال سے پاکستان امریکہ سمیت عالمی دنیا کو تجویز کر رہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل طاقت نہیں مفاہمتی عمل اور وہاں کی حقیقی سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لینے سے وابستہ ہے اور اس جانب پیش رفت ہونی چاہئے۔
بالآخر اپنے تمام تجربات کے بعد امریکہ اور امریکی قیادت یہاں تک پہنچی ہے کہ پاکستان کو کہا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب امریکہ برابری کی سطح پر آ گیا ہے۔ لہٰذا افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے اس پیش رفت کے ساتھ یہ سوال بھی کھڑا ہو گیا ہے کہ افغان مسئلہ کا حل اگر بیٹھ کر بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے تو پھر پاکستان اور ہندوستان بھی بیٹھ کر دو طرفہ تعلقات کیلئے باہمی تنازعات کا حل نکالیں لہٰذا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ افغان مفاہمتی عمل کارگر ہو سکے گا۔ افغان انتظامیہ اس حوالے سے کتنی سنجیدگی ظاہر کرتی ہے۔ اس عمل کو امریکہ کی کتنی تائید و حمایت حاصل ہوگی اور کیا پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا پائے گا۔ طالبان اپنے مؤقف میں لچک پیدا کر پائیں گے۔
جہاں تک امریکی طرز عمل کا سوال ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ افغانستان میں طاقت کے استعمال سے وہ نتائج حاصل نہیں کر سکا جو چاہتا تھا نہ تو اس کا اپنا تسلط قائم ہو سکا نہ افغان انتظامیہ کے قدم جم سکے اور نہ ہی وہ افغانستان جیسے پسماندہ ملک میں فتح کا اعلان کر سکا، جہاں تک اس میں پاکستانی کردار کا سوال ہے تو سابق فوجی آمر نے اس جنگ میں شرکت کا فیصلہ اس لئے نہیں کیا تھا کہ وہ امریکی مؤقف سے قائل ہو گئے تھے بلکہ کولن پاؤل نے دھمکی دے کر پاکستان کو اس جنگ کا حصہ بنایا۔ باوجود دباؤ کے پاکستان کے عوام نے اس جنگ کو اپنی جنگ تسلیم کر لیا اور امریکی جنگ کو اپنی جنگ منوانے کیلئے پاکستان کے پر امن ماحول کو بھی دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا لیکن پاکستان پھر بھی مصررہا کہ اگر امریکہ افغانستان کے مسئلہ کا حل چاہتا ہے تو طاقت کے بجائے مفاہمتی عمل آگے بڑھائے اور جب بھی اس کردار کیلئے مدد مانگی گئی پاکستان نے مدد کی۔
مری مذاکرات اس کا بہترین ثبوت ہیں مگر مذاکراتی اور مفاہمتی عمل کی ناکامی میں خود امریکہ اور بھارت کا کردار رہا۔ مری مذاکرات چل رہے تھے تو افغان صدارتی محل پر راکٹ کس نے برسائے وہ سب کچھ عیاں ہے لہٰذا اب جب کہ امریکہ خود جان چکا ہے کہ افغان مسئلہ کا حل ان کے پاس نہیں اور طاقت کے ذریعے ممکن نہیں تو پاکستان کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان اس پوزیشن میں تھا اور ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہوگا کہ افغانستان میں مفاہمتی عمل کے ذریعے ایک نمائندہ حکومت کا قیام عمل میں آئے اور کٹھ پتلی حکومتوں سے نجات ملے اور امریکی افواج کا انخلا کیا جائے۔
بظاہر امریکہ نہیں چاہے گا کہ اپنی افواج کا انخلا کرے اور نہ ہی پاکستان کا مطالبہ ہوگا کہ ایک مستقل اور مضبوط سسٹم اور حکومت کے قیام تک امریکی افواج یہاں سے نکلیں لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ امریکہ اب افغانستان کی صورتحال سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور وہ کسی ایسے حل پر آنا چاہتا ہے جس سے خود اسے اپنی افواج کو یہاں سے واپس بلانا پڑے کیونکہ افغانستان کی صورتحال سے امریکہ کا بھرم اور حاکمیت کا رجحان متاثر ہوا ہے۔ اس کی آمد سے دہشت گردی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے اور افغان مسئلے کا بگاڑ کم ہونے کے بجائے بڑھا ہے لہٰذا اب امریکہ کو خود اپنے مفاد میں پاکستان کی کوششوں اور کاوشوں کی تائید و حمایت اور سرپرستی کرنا ہوگی، مسئلہ کے حل میں معاون بننا ہوگا۔
نمائندہ حکومت کے قیام کے عمل کو یقینی بنانا پڑے گا اور اس کیلئے افغان انتظامیہ پر اپنا اثر و رسوخ بروئے کار لانا پڑے گا کیونکہ بنیادی طور پر مفاہمتی عمل میں اصل فریق طالبان کے ساتھ افغان انتظامیہ ہوگی جس کے حوالے سے عام رائے یہ ہے کہ اس پر امریکہ کے ساتھ خود بھارت کا اثر و رسوخ بھی ہے اور بھارت کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن اور مفاہمتی عمل پاکستان کے ذریعے آگے بڑھے کیونکہ اسے خوب معلوم ہے کہ اس صورت میں پاکستان کا اثر و رسوخ قائم ہوگا اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔
افغانستان میں امن سے خود پاکستان کا امن و استحکام مشروط ہے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کے نتیجہ میں سی پیک کے ثمرات اس خطہ تک وسیع ہو سکتے ہیں اور اس کا فائدہ افغانستان کی تعمیر نو میں بھی ہوگا لہٰذا لازم یہی ہے کہ افغان مفاہمتی عمل کے ساتھ ساتھ یہی عمل پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی ہو اور ان کے درمیان تنازعات خصوصاً کشمیر اور دیگر ایشوز پر بات چیت کا عمل شروع ہو جائے اور اس میں بھی بنیادی کردار امریکہ کا ہوگا، اگر امریکہ بھارت پر دباؤ بروئے کار لائے گا تو خطہ میں استحکام کی راہیں ہموار ہوں گی، ہندوستان، افغانستان اور خود پاکستان کے اندر عوام کی حالت زار میں بہتری، ترقی و خوشحالی کیلئے پیش رفت ہو سکے گی جس کے نتیجہ میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہوگا اور حکومتیں اپنے عوام کو ڈلیور کرنے اور گورننس کے خواب کو حقیقت میں بدل سکیں گی لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں امریکہ کو نیک نیتی سے اپنی پالیسی میں امن و استحکام کو ترجیح دینا ہوگی۔