افغان مفاہمتی عمل، پریشان کون؟

Last Updated On 18 January,2019 09:52 am

لاہور: (سلمان غنی) افغان صدر اشرف غنی کی پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو آنے والی ٹیلی فون کال میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے اپنی ملاقات پر اعتماد میں لینے کے ساتھ مفاہمتی عمل میں پاکستان کے کردار پر اطمینان کا اظہار کیا گیا جسے افغانستان میں جاری امن کوششوں کے حوالے سے مثبت اور اہم قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ ماضی میں ایسی کاوشیں نہ ہو سکیں اور افغانستان دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہا اب چونکہ یہ سارا عمل خود امریکی انتظامیہ کی تحریک پر شروع ہوا۔ مفاہمتی عمل میں طالبان کو مذاکرات پر لانے کا کردار پاکستان کو سونپا گیا اور اس سہولت کاری کے نتیجہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل شروع ہو چکا ہے۔

امریکہ مسئلہ کا حل نکالنے کے ساتھ اپنی افغانستان سے رخصتی میں بھی سنجیدہ ہے جبکہ مفاہمتی عمل کے حوالے سے سب سے زیادہ پریشان خود افغان انتظامیہ اور پاکستان ہے۔ پاکستان ہر قیمت پر مذاکراتی عمل کو یہاں ایک مضبوط حکومت کے قیام تک مؤخر رکھنا چاہتا ہے تا کہ ایسا نہ ہو کہ امریکی افواج یہاں سے رخصت ہوں اور ایک مرتبہ پھر افغانستان میں جنگ و جدل شروع ہو اور پھر ماضی کی طرح مہاجرین کا دباؤ پاکستان پر آ جائے۔

دوسری جانب طالبان سے امریکہ کے مفاہمتی عمل کے بعد خود اشرف غنی انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں اور ان کی رہی سہی رٹ بھی متاثر ہو چکی ہے۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مفاہمتی عمل کے نتیجہ میں امریکی افواج یہاں سے رخصت ہوتی ہے تو انہیں کن کے سہارے یہاں چھوڑ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان انتظامیہ کی بھرپور کوشش ہے کہ افغان انتظامیہ کو مفاہمتی عمل کا حصہ بنایا جائے تا کہ اس کی افغانستان میں اہمیت و حیثیت قائم رہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا اور خود امریکہ کی طرح افغان حکومت کو بھی طالبان سے مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کی درخواست کی۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان امن عمل میں کوئی بڑا بریک تھرو ہو سکے گا۔ طالبان افغان انتظامیہ کو مفاہمتی عمل کی کوششوں میں شریک کرنے کیلئے تیار ہوں گے ؟ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے کتنے امکانات ہیں؟۔

افغان امن عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کے بنیادی کردار کے باعث امریکہ اور طالبان سر جوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں اور امریکہ اور دیگر بین الاقوامی قوتوں میں یہ احساس مضبوط ہوا ہے۔ افغانستان میں طالبان اہم سیاسی قوت ہیں اور انہیں نظر انداز کر کے اب یہاں امن و استحکام نا ممکن ہے اور افغان طالبان سے براہ راست امریکہ کے مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں طالبان کا افغانستان میں مستقل کردار کو تسلیم کر لیا گیا ہے جہاں تک یہاں اشرف غنی انتظامیہ کے کردار کا تعلق ہے تو یہ حقیقت کھل چکی ہے کہ اشرف غنی انتظامیہ امریکی افواج اور ان کی مدد کے بغیر کھڑی رہ سکتی ہے نہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان حکومت کا حالات سے نمٹنا ممکن ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی بات نے افغان حکومت کو بری متاثر کیا ہے اور اب وہ ادھر اُدھر دیکھنے کے ساتھ ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

امریکی میڈیا کی رپورٹس سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکہ اب افغانستان کیلئے 46 ارب ڈالرز کا سالانہ بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں اور نہ ہی اب وہ امریکی افواج یہاں رکھنے کا متحمل ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ افغان امور کے ماہرین یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ افغانستان میں اپنے تسلط کیلئے پہلے امریکہ کو آنے کی جلدی تھی اور اب یہاں ذلت و رسوائی اٹھانے کے بعد جانے کی جلدی ہے اس کے دونوں اقدام دنیا میں لڑی جانے والی جنگوں کے حوالے سے دیکھے جائیں تو دنیا کی سپر پاور کو جنگ لڑنے کی بھی جلدی ہوتی ہے اور جب اس کے مقاصد پورے ہو جائیں یا اسے اس میں مکمل ناکامی نظر آ رہی ہے تو پھر یہ صورتحال کے دیگر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے یکطرفہ فیصلے کر ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جنگ لڑنے کا ہو یا میدان جنگ سے پسپائی کا ہو۔ افغانستان کے معاملہ میں امریکہ پہلی دفعہ نہیں دوسری دفعہ مستحکم سیاسی پیش رفت سے پہلے یکطرفہ طور پر فوجوں کا انخلا چاہ رہا ہے۔ 1989ء جنیوا معاہدے کے تحت امریکہ خطے کو اس کی حالت پر چھوڑ چلا گیا تھا اور اب بھی اس کا یہی پلان لگتا ہے کہ علاقائی فورسز بیشک دست و گریباں رہیں مگر امریکہ اب اپنا دامن چھڑاکر یہاں سے نکل جائے۔