لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ ) ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کیسے آئیں گی؟ کیا نان فائلرز واقعی ٹیکس ادا کریں گے ؟ اس حوالے سے تجزیہ کار اکرام الحق کا کہنا ہے کہ ٹیکس گوشوارے اتنے پیچیدہ ہیں کہ ہر شخص ان کو پر کرنے سے گھبراتا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو نکال دیں تو ٹیکس دینے والوں کی تعداد کچھ بھی نہیں رہ جاتی، ٹیکس دینے والے کاروباری لوگوں کی تعداد چار پانچ لاکھ ہے۔
اکرام الحق نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر بالغ آدمی کو ٹیکس ریٹرن داخل کرنی چاہئے خواہ اس کی آمدن کچھ بھی ہو تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ پاکستان میں کتنے لوگ ہیں اور ان کی آمدن کیا ہے۔ در اصل ایف بی آر کے پاس کوئی تحقیق پر مبنی طریقہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ اندازہ کیا جاسکے، 21 کروڑ آبادی میں کتنے لوگ ٹیکس دیتے ہیں جب نوٹسز دیئے گئے تو یہ دفتر میں بیٹھ کر ایک جعلی کوریئر سروس سے بھیجے گئے اور پھر اپیلوں کا بازار گرم ہوا۔ لوگوں نے بتایا کہ انھیں تو کبھی نوٹس ملے ہی نہیں اور ان کے خلاف جھوٹی ڈیمانڈ بنا دی گئی ہے۔ گزشتہ تین چار سال میں ایف بی آر نے برا کام کیا ہے، ایسے ہی ٹیبل پر لاکھوں آرڈر پاس کر دئیے گئے ۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ابھی ہمارے ہاں 70سے زیادہ ٹیکسوں کی ود ہولڈنگ ہو رہی ہے اور ہمارے سرکاری اہل کار صرف زبانی جمع خرچ کر کے کام چلاتے ہیں، سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین ہارون شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں ٹیکسوں کی تعداد 47 سے 16کرنے کے بارے میں بتایا، وہ ان ٹیکسوں کے نام بتا دیتے تو ہمیں بھی پتہ چل جاتا۔
تجزیہ کار اکرام الحق کا کہنا ہے کہ ون ونڈو آپریشن پچھلے ستمبر میں ان کے آنے سے پہلے کی بات ہے ایس ای سی پی نے اعلان کیا تھا کہ ون ونڈو سہولت کا اعلان کر کے ہم 84 ہزار کی تعداد حاصل کر چکے ہیں لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ صرف 36 ہزار افراد نے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کی تھی۔ جعلی کمپنیاں بنیں، انھوں نے جعلی اکاؤنٹس کھولے اور ان سے نجانے کیا کیا کام ہوا ہے، پچھلے دنوں 30 ہزار ایسی کمپنیاں رجسٹر ڈہوئی ہیں جن کے جعلی کرنسی اکاؤنٹس کے معاملات چل رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان 84 ہزار کمپنیوں نے انکم ٹیکس کی ریٹرن کیو ں فائل نہیں کی ؟ یہ بڑا گیپ ظاہر کر رہا ہے کہ سسٹم میں خرابی ہے۔