بھارتی طرز عمل پرعمران خان کا جرأت مندانہ جواب

Last Updated On 20 February,2019 09:05 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پلوا مہ واقعہ پر بھارت کے جارحانہ طرز عمل کے جواب میں حقیقت پسندانہ طرز عمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کہا کہ ہم دہشت گردی کیلئے اپنی سر زمین استعمال نہ ہونے دیں گے اور اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت ہے تو ہر طرح کی تحقیقات کرانے کیلئے تیار ہیں۔ دہشت گردی کے ایشو پر مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن اگر بھارت پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے رد عمل پر سوچیں گے نہیں بلکہ کریں گے اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہوگا اور یہ وہ جرأت مندانہ اظہار تھا جو قوم کے جذبات و احساسات کا مظہر تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب کے ذریعے بھارت کو ایک پیغام دیا ہے جس میں مسائل کے سیاسی حل کا آپشن بھی ہے اور جارحانہ طرز عمل کے علاج بارے بھی بتا دیا ہے۔ اگر بھارتی وزیراعظم اور پاکستانی وزیراعظم کے پلوا مہ واقعہ پر رد عمل کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان اور پاکستان کے طرز عمل میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ ایک طرف کی لیڈر شپ انتہا پسندانہ ہے تو دوسری طرف ذمہ دارانہ ہے۔ ایک جانب سے جارحانہ حملوں کی بات ہو رہی ہے تو دوسری جانب ڈائیلاگ اور مذاکرات کی بات ہو رہی ہے۔ لہٰذا بھارت کو چاہئے کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم کے بیان اور پیغام کا گہرائی سے جائزہ لے۔ پاکستان چھوٹا ملک سہی لیکن مقابلہ کی زبردست قوت کا حامل ملک ہے جس کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی پیشہ ورانہ فوج ہے اور آج کا پاکستان نیوکلیئر ملک ہے اور بھارت کو اچھی طرح پاکستان کی اس صلاحیت کا اندازہ بھی ہے۔

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے سیاسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے یہ پیشکش کی کہ اگر بھارت کے پاس پلوا مہ واقعہ کے حوالے سے شواہد ہیں تو پاکستان کو دے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی پاکستان سے دہشت گردی میں ملوث ہے تو دراصل وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ عمران خان کی جانب سے دی جانے والی وضاحت کو خالصتاً دفاعی قرار دیا جا سکتا ہے مگر انہوں نے خود پر جذبات طاری کرنے کے بجائے اپنا سیاسی کیس اپنے عوام اور دنیا کے سامنے رکھا ہے اور دہشت گردی جیسے سنجیدہ ایشو پر مذاکرات کی پیش کش بھی کی۔ عمران خان کا درست کہنا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد بتا رہی ہے کہ ان کے سروں سے موت کا خوف اتر گیا ہے اور یہ صورتحال بتاتی ہے کہ وہ اب خاموش رہنے والے نہیں۔ دنیا کے اہم ممالک کشمیر اور دیگر مسائل کیونکر حل نہیں کر سکتے۔ کشمیریوں کی جدوجہد کو طاقت اور قوت سے دبایا نہیں جا سکا اور اب دنیا تسلیم کر رہی ہے ۔لہٰذا وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اختیار کئے جانے والے مؤقف کے بعد گیند بھارت اور اس کی قیادت نریندر مودی کی کورٹ میں ہے انہیں نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے عقل کے ناخن لیتے ہوئے مسئلہ کے سیاسی حل کی جانب بڑھنا چاہئے۔ یہی خود ان کے اور خطہ کے امن کے بہترین مفاد میں ہے۔

ہاں البتہ پاکستان کیلئے بھارت جیسے دشمن اور مودی جیسے انتہا پسند لیڈر کے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے اور جنگ اور جارحیت سے بچنے کا بہترین ذریعہ جنگ کی تیاری ہوگا اور اس کیلئے خود پاکستان میں اتحاد و یکجہتی کا ماحول قائم ہونا چاہئے اور یہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ پاکستان کے اندر اور خصوصاً پاکستان کے عوام اپنے دشمن کے حوالے سے یکسو ہیں اور کسی جارحیت کی صورت میں وہ اپنی فوج کے پیچھے متحد کھڑے ہوں گے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرحلہ پر حکومت اور اپوزیشن کو ایک نظر آنا چاہئے۔ یہ عمل پارلیمنٹ کے فلور پر بھی ممکن ہو سکتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو آل پارٹیز کانفرنس کے آپشن کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے وزیراعظم عمران خان کو دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ کسی جماعت یا قیادت کا نہیں پاکستان کا ہے اور ملکی مفاد اور سلامتی کیلئے ذاتیات اور سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔