لاہور: (دنیا میگزین) بھارت کو عالمی برادری سے ممبئی حملے جیسی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ بھارتی میڈیا نے کانگریس کے اکثریتی علاقوں میں کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کر دی۔
14 فروری کو پلوامہ میں ریزرو پولیس کے 78 کاروں اور ٹرکوں پر مشتمل ایک قافلے پر خود کش حملے میں 44 افراد کی ہلاکت کے چند منٹ بعد ہی بھارتی میڈیا اور حکمرانوں نے پاکستان اور ایک دو پاکستانی شخصیات کے خلاف واویلا شروع کر دیا۔
بھارتی پراپیگنڈہ میں مسعود اظہر کو حملے میں ملوث قرار دیا گیا، مگر بھارتی میڈیا کے سنجیدہ حلقوں نے ناصرف بھارتی حکمرانوں پر تنقید کی بلکہ انہوں نے اپنے ہی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا جس نے بغیر کسی تصدیق کے پاکستان کے خلاف الزام تراشی شروع کر دی اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ فلاں شخص نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
بھارتی میڈیا نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ اس حملے میں مسعود اظہر کا بھتیجا محمد عمیر ملوث ہے حالانکہ مغربی میڈیا نے بھی بھارتی حکمرانوں اور میڈیا کی قطعی تردید کی۔
اس ضمن میں برطانوی اخبار گارڈین کا تبصرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ برطانوی اخبار میں مقامی پولیس چیف کے حوالہ سے بتایا کہ اس واقعہ میں کون ملوث ہے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پولیس اور ادارے تفتیش کر رہے ہیں۔ فی الحال حقیقت سامنے نہیں آئی ۔
برطانوی اخبار نے بھارتی میڈیا کا پول کھول دیا مگر بھارتی حکمران اور سیاستدان اس بارے میں اپنی بے بنیاد بولیاں بول رہے ہیں۔ اس ایک واقعہ سے بھارت نے عالمی سیاسی صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے۔
اقوام متحدہ کے پانچ بڑے ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس کے سفیروں کو فوری طور پر بریفنگ میں پاکستان پر الزام تراشی کی۔ بھارتی رہنماؤں نے سلامتی کونسل کے ان مستقل ارکان کے علاوہ 30 کے قریب دیگر ممالک سے بھی فوری رابطے کر لیے اور انہیں اپنے من گھڑت موقف سے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
بھارتی حکمران نے پاکستان کے علاوہ چین پر بھی الزام تراشی کی اور اسے بھی دہشت گردی کے پھیلاؤ میں گھسیٹنا چاہا۔ اس وقت بھی چین کے خلاف بھارتی میڈیا پر الزام تراشی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔
بھارت کی ٹائمنگ دیکھئے، ایک طرف تو کلبھوشن یایدو کے کیس کی سماعت شروع ہونے والی تو دوسری طرف انسداد منی لانڈرنگ کے لیے بنائے گئے یورپی ادارے ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہونے والا تھا۔
تیسری اہم بات خطے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی موجودگی تھی۔ بھارتی حکام اس اہم وقت میں پاکستان کا امیج خراب کرنے میں کردار ادا کرنا چاہتے تھے، ورنہ دنیا کا کوئی ملک بھی سانحہ کے فوراً بعد ملزموں کے ناموں کی نشاندہی نہیں کرتا۔ امریکہ نے بھی دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد اپنا وقت لیا۔
برطانیہ نے بھی تحقیقات کے بعد ہی دہشت گردوں کے ناموں کا اعلان کیا مگر بھارت وہ واحد ملک ہے جسے سانحہ کے بعد چند لمحوں میں ملزمان کی مکمل تفصیل معلوم ہو جاتی ہے۔ پھر ان ناموں کی گردان میں بھارتی الیکٹرانک میڈیا پیش پیش ہوتا ہے۔
اس مرتبہ بھارت ممبئی دھماکے کی طرح سیاسی فائدے اٹھانے میں ناکام رہا ہے۔ ممبئی دھماکے کے بعد امریکہ کے سابق صدر بارک اوباما نے بھارتی حکام سے رابطہ کیا تھا۔ تمام اہم عالمی سربراہوں نے واقعہ پر گہری تشویش ظاہر کی تھی۔
اس کے برعکس 14 فروری کے بعد امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے مشیر جان بالٹن بھارتی سیکیورٹی قونصل کے چیف اجیت ڈوول سے فون پر رابطہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ کوئی بڑی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی، یعنی بھارت کے ڈھول کا پول عالمی سطح پر کھل چکا ہے۔ اب اسے پہلے جیسی حمایت حاصل نہیں ہے۔
سعودی ولی عہد نے بھی پاکستان کو ایک اہم ملک قرار دیتے ہوئے اس کی پالیسیوں سے مکمل اتفاق کیا ہے۔ 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اربوں روپے کی امداد اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان مستقبل میں بھی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ملک رہے گا۔