کہاں ہے کیمپ، کیا ہم دہشت گرد ہیں؟

Last Updated On 01 March,2019 10:16 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) بھارتی فضائیہ کی نام نہاد کارروائی کا واحد متاثرہ نوران شاہ منگل کو سحری کے وقت اپنے ہڑبڑا کر جاگنے پر آج بھی حیران ہے، اس روز کے دھماکوں سے اس کا کچا مکان لرز اٹھا اور اس کی دائیں آنکھ کے اوپر کا حصہ زخمی ہو گیا۔ وہ پوچھتا ہے کہ یہاں کون سے دہشت گرد دکھائی دیتے ہیں جنہیں بھارتی فضائیہ نے نشانہ بنایا۔ صر ف ہم یہاں رہتے ہیں، کیا ہم دہشت گرد ہیں؟۔

جابہ کے مکین گھنی ڈھلوان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں پھٹنے والے چار بم اور چیڑ کے درختوں کے تنے بکھرے ہوئے ہیں۔ جابہ گھنے درختوں اور ندیوں میں گھرا پہاڑی گاؤں ہے جہاں سے خوبصورت سیاحتی مقام وادی کاغان کی طرف راستہ نکلتا ہے۔ مقامی ڈرائیور عبدالرشید نے بتایا کہ دھماکوں نے ہر کسی کو ہلا دیا تھا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، صرف چند چیڑ کے درخت گرے، ایک کوا بھی ہلاک ہوا۔ جابہ کی کچے گھروں میں بکھری آبادی 400 سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔

رائٹرز نے 15 مکینوں سے بات کی، نوران شاہ کی طرح ہر کوئی جانی نقصان سے لاعلم تھا۔ جابہ کے قریبی سرکاری ہسپتال کے ملازم محمد صدیق جو کہ بھارتی فضائیہ کے حملے کے وقت ڈیوٹی پر تھے نے جانی نقصان کا بھارتی دعویٰ سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا یہ سب بکواس ہے، ہسپتال میں ایک شخص بھی زخمی حالت میں نہیں آیا۔ نوران شاہ واحد شخص ہے جوکہ معمولی زخمی تھا، اس کی مرہم پٹی تک نہیں ہوئی، اسے یہاں لایا نہیں گیا۔

تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال بالا کوٹ کے سینئر میڈیکل آفیسر ضیا الحق نے بتایا کہ منگل کو ہسپتال میں کسی زخمی کو نہیں لایا گیا۔ اہل علاقہ نے بتایا کہ علاقے میں کوئی فعال تربیتی کیمپ نہیں، ایک مدرسہ ہے، وہ بھی بمباری کے مقام سے ایک کلو میٹر دور ہے۔ نوران شاہ نے بتایا کہ مدرسہ تعلیم القرآن میں گاؤں کے بچے پڑھتے ہیں، وہاں کوئی تربیتی کیمپ نہیں۔ اسلام آباد کے مغربی سفارتکاروں کا بھی کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ بھارتی فضائیہ نے جنگجوؤں کے کیمپ کو نشانہ بنایا، وہاں کوئی تربیتی کیمپ نہیں تھا، بلکہ کئی سالوں سے وہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ ہماری انٹیلی جنس کو بھی اس بات کا علم ہے۔
 

Advertisement