لاہور: (رونامہ دنیا) جب میں نے فضائی حملوں کی خبر سنی تو اندازہ لگایا کہ شاید غزہ یا شام میں کہیں کسی کو ہدف بنایا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ دہشت گردوں کا تربیتی کیمپ نشانے پر لیا گیا۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر تباہ کیا گیا۔ متعدد دہشت گرد مارے گئے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ فوج پر حملے کے جواب میں یہ کارروائی کی گئی۔ خبر میں بتایا گیا کہ ایک اسلامی جہاد بیس کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ پھر جب میں نے بالا کوٹ کا نام سنا تو اندازہ ہوا کہ یہ غزہ ہے نہ شام۔ اور لبنان بھی نہیں۔ یہ تو پاکستان ہے ۔ ہے نا عجیب بات۔ کوئی بھارت اور اسرائیل کو کیسے خلط ملط کرسکتا ہے ؟ خیر اس تصور کو ہاتھ سے جانے مت دیجیے۔
اسرائیل اور بھارت کی وزارت دفاع کو ڈھائی ہزار میل کا فاصلہ الگ کرتا ہے مگر ایک حقیقت ہے جو ان دونوں کو ایک کرتی ہے۔ کئی ماہ سے اسرائیل نے خود کو بھارت کی انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست بی جے پی حکومت سے ہم آہنگ رکھا ہے جو خاموش مگر سیاسی طور پر انتہائی خطرناک اسلام مخالف اتحاد کا درجہ رکھتا ہے۔ اس دوران بھارت اسرائیلی اسلحے کی سب سے بڑی منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایسے ماحول میں یہ بات ذرا بھی حیرت انگیز نہیں کہ بھارتی پریس اس بات کو بہت فخر سے بیان کر رہا ہے کہ پاکستانی علاقوں میں کالعدم جیش محمد کے مبینہ ٹھکانوں پر حالیہ حملے کے دوران بھارتی لڑاکا طیاروں نے اسرائیلی ساخت کے ‘‘رافیل اسپائس 2000’’ سمارٹ بم استعمال کیے ہیں۔ اس نوعیت کے حملوں اور ان کی کامیابی کو اسرائیلی بھی بہت بڑھا چڑھاکر بیان کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ پاکستانی علاقے میں حملے کی کامیابی کے حوالے سے بھارتی دعوے بہت حد تک محض تخیل کا شاخسانہ ہوں اور ان کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہ ہو۔ اسرائیل کے جی پی ایس گائیڈڈ بموں کے پھٹنے سے 300 یا 400 مبینہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے مگر ہوسکتا ہے کہ در حقیقت محض درخت اور پتھر تباہی سے دوچار ہوئے ہوں۔ مگر خیر 14 فروری کو (مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں) بھارتی فوج سے نام نہاد جیش محمد کے جانبازوں کی جھڑپ غیر حقیقی نہیں تھی جس میں چالیس بھارتی فوجی مارے گئے ۔ اور اس ہفتے پاکستان کے ہاتھوں ایک بھارتی طیارے کا مار گرایا جانا بھی ناقابل تردید حقیقت ہے۔
2017 میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا۔ فلسطینیوں کے خلاف اور شام میں آزمائے جانے والے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں سمیت ایمونیشن، ایئر ڈیفنس سسٹم اور راڈار کی خریداری کی مد میں بھارت نے اسرائیل کو 53 کروڑ ڈالر ادا کیے۔ اسرائیل کے لیے یہ سمجھانا بہت مشکل ثابت ہوا ہے کہ وہ میانمار (برما) کی فوجی حکومت کو ٹینک، ہتھیار اور کشتیاں کیوں فروخت کر رہا ہے جبکہ مغرب کی بہت سی ریاستیں مسلم اقلیت (روہنگیاز) سے انسانیت سوز سلوک کی بنیاد پر میانمار کی حکومت پر پابندیاں عائد کرتی رہی ہیں۔ مگر خیر، بھارت اور اسرائیل کے درمیان اسلحے کی تجارت ہر اعتبار سے قانونی اور معمول سے ہٹ کر ہے اور دونوں ہی طرف اسے بیان کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی جاتی۔ اسرائیل نے اپنے سپیشل کمانڈو یونٹس اور بھارت کے کمانڈوز کو نیگیو کے صحرا میں دی جانے والی تربیت کی فلمنگ کی ہے۔ یہ تربیت ممکنہ طور پر اس مہارت کی بنیاد پر کی گئی ہے جو غزہ اور فلسطین کے دیگر شہری علاقوں کے ‘‘جنگی محاذوں’’ پر حاصل کی گئی۔ بھارت کے 45 رکنی عسکری وفد میں شامل 16 گروڈ کمانڈوز کو کچھ مدت کے لیے اسرائیل کے نیواتم اور پالماچم بیسز پر بھی تعینات کیا گیا۔
بھارت کے قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کے اسرائیل کے دورے کے بعد گزشتہ برس بھارت کے پہلے دورے میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 26 نومبر 2008 کو ہونے والے ممبئی حملوں کو بھی یاد کیا جس میں کم و بیش 170 شہری مارے گئے تھے۔ انہوں نے مودی سے کہا تھا کہ ان حملوں کے درد کو بھارت اور اسرائیل دونوں کے شہری اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممبئی میں جو سفاکی دکھائی گئی وہ ہم بھولے نہیں ہیں، ہمارا عزم ہے کہ ہم ہمت نہیں ہاریں گے اور لڑتے رہیں گے۔ یہی بیانیہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا بھی تھا۔ بہت سے بھارتی مبصرین البتہ خبردار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کی دائیں بازو کی صہیونیت اور بھارت کی دائیں بازو کی قوم پرستی دونوں ممالک کی دوستی کی بنیاد نہیں ہونی چاہیے۔ برسلز میں مقیم بھارتی ریسرچ سکالر شیری ملہوترا نے (جن کی تحریریں اسرائیل کے اخبار ‘‘ہاریز’’ میں شائع ہوچکی ہیں) گزشتہ برس لکھا تھا کہ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی بھارت میں ہے جو اٹھارہ کروڑ سے کم نہیں۔ ایسے میں اسرائیل اور بھارت کی بڑھتی ہوئی دوستی کو دونوں ممالک کی انتہا پسند حکمران جماعتوں کی نظریاتی اساس کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔
ہندو قوم پرستوں نے ایک ایسا بیانیہ تیار کیا ہے جس کے مطابق بھارت کے ہندو مسلمانوں کے ہاتھوں تاریخی طور پر ہدف رہے ہیں۔ یہ بیانیہ ان تمام ہندوؤں کے لیے انتہائی پرکشش اور قابل قبول رہا ہے جنہوں نے 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کا دکھ جھیلا اور جن کی نظر پاکستان سے کئی عشروں کے کشیدہ تعلقات پر بھی رہی ہے۔ شیری ملہوترا نے ‘‘ہاریز’’ میں لکھا ہے کہ بھارت میں اسرائیل کے سب سے بڑے پرستار وہ ‘‘انٹرنیٹ ہندو’’ ہیں جو بنیادی طورپر اسرائیل سے اس بنیاد پر محبت کرتے ہیں کہ وہ فلسطین سے کس طور نمٹتا ہے اور مسلمانوں سے کس طرح لڑتا ہے ! شیری ملہوترا نے کارلٹن یونیورسٹی کے پروفیسر وویک دہیجا کی اس تجویز پر بھی شدید تنقید کی ہے کہ (نام نہاد) مسلم دہشت گردی کا نشانہ بننے کی بنیاد پر بھارت، اسرائیل اور امریکہ کو اتحاد قائم کر لینا چاہیے۔ یہ سوچنا انتہائی دشوار ہے کہ بھارت اور اسرائیل کی صہیونیت بھارت کی قوم پرستی میں اپنا اثر و نفوذ پیدا نہیں کرے گی جبکہ اسرائیل بڑے پیمانے پر بھارت کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور ان میں سے جدید ترین ہتھیار کو بھارتی فوج نے پاکستان کی حدود میں اسلام پسندوں کے خلاف استعمال بھی کرلیا ہے۔
(بشکریہ ۔ دی انڈیپینڈنٹ )