1879ء میں قائم ہونے والا بلوچستان میں ریلوے کا نظام

Last Updated On 10 March,2019 06:46 pm

کوئٹہ: (دنیا نیوز) برٹش دور حکومت میں بلوچستان میں 1400 کلومیٹر سے زائد ریلوے لائنوں کا جال بچھایا گیا۔ وسائل کی کمی اور جدید ٹیکنالوجی کے بغیر انجئنیرز اور لیبر کی محنت کے بعد 30 سرنگیں اور 800 سے زائد خوبصورت پل تیار کیے گئے جو خوبصورتی اور پائیداری میں اپنی مثال آپ ہے۔

پہاڑوں، صحراؤں اور میدانوں کی سرزمین بلوچستان میں ریل کی پٹری بچھانے کا آغاز 16 اکتوبر 1879ء میں ہوا۔ بلوچستان کے سنگلاغ پہاڑوں کا سینہ چاک کر کے یہاں ریلوے کا نظام بچھایا گیا۔

یہ وہ دور تھا جب نہ ہی ٹیکنالوجی تھی اور نہ ہی جدید سہولیات، مشینری کے بغیر 20 سے 30 ہزار مزدوروں کے ہاتھوں کی محنت سے یہ پل اور سرنگیں تیار کی گئیں جو کسی شاہکار سے کم نہیں ہے۔

بلوچستان میں ریل کی پٹری کو پانچ حصوں میں مکمل کیا گیا جو ڈیرہ اللہ یار سے شروع ہو کر سبی، ہرنائی اور بوستان تک، بولان سیکشن میں مچھ، کولپور کوئٹہ تک جبکہ کوئٹہ سے افغانستان کے سرحدی شہر چمن اور ایران کے شہر زاہدان تک پھیلا ہوا ہے۔ بلوچستان میں نیرو گیج لائن بوستان سے ژوب تک پہنچا دی گئی۔

بلوچستان کے ریلوے نظام میں سرفہرست بولان سیکشن اور کوئٹہ سے چمن جاتے ہوئے خوجک ٹنل قابل ذکر ہیں۔ کوئٹہ تا سبی ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے بولان کے پتھریلے پہاڑوں میں 20 سرنگیں کھودنا پڑیں اور ندیوں پر 396 لوہے کے مضبوط پل تعمیر بنائے گئے جو ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت جانے کے باوجود آج بھی اس ریلوے لائن کو سنبھالے ہوئے ہے جہاں دن میں کئی مال بردار اور مسافر ٹرینیں گزر کر اپنی منزل کو پہنچتی ہیں۔

بلوچستان کے بلند وبالا پہاڑوں اور سخت موسم میں ریل کی پٹری بچھانا ایک صدی قبل بلا شبہ انجئنئیرز اور لیبر کے لیےایک چیلینج رہا ہوگا جس میں موسم کی شدت اور سہولیات کی کمی کے باوجود بلوچستان میں ریل کا نظام لایا گیا جو آج تک صوبے کے عوام کو بہترین سفری سہولیات فراہم کر رہا ہے۔