لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان کے دفاع کی اہم کڑی جے ایف 17 تھنڈر کے ذریعے ملکی ساختہ میزائل کا کامیاب تجربہ ہوا ہے جو ظاہر کرتا ہے ملکی دفاع کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور دشمن کے مذموم عزائم کے توڑ کیلئے تگ دو کا سلسلہ جاری ہے اور ہر آنے والے دن میں ملکی مسلح افواج اور ادارے خود کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے سرگرم ہیں اور یہ کام صرف اور صرف ٹیکنالوجی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک جذبہ اور ولولہ کو بروئے کار لا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس کی ایک مثال یہ جدید ترین میزائل ہے جسے جے ایف 17 تھنڈر کے ذریعے دن یا رات کسی بھی وقت بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
بھارت کے جارحانہ عزائم کے حوالے سے ہمیشہ ہی پاکستان کے حکومتی ادارے خصوصاً مسلح افواج الرٹ رہی ہیں اور انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ اہلیت اور صلاحیت پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ جس کی ایک بڑی مثال حال ہی میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی جارحیت اور اس کے جواب میں سرحدی خلاف ورزیوں پر ان کے دو مگ 21 کا ڈھیر ہونا ہے جو اس امر کا واضح ثبوت تھا بھارت خود کو بڑی طاقت ضرور سمجھتا ہے مگر اس امر سے غافل نہ رہے کہ پاکستانی افواج اور فضائیہ اپنے فرض سے غافل ہیں۔ بھارت کے پاس تقریباً ساڑھے آٹھ سو جنگی جہاز موجود ہیں، جب کہ پاکستان کے پاس تقریباً ساڑھے 4 سو فائٹر طیارے موجود ہیں۔ عددی اعتبار سے بظاہر صورتحال بھارت کے حق میں ہے مگر جنگ تعداد نہیں صلاحیت اور جوش و جذبے کا نام ہے۔ بھارت کے پاس اس وقت روسی ساختہ ٹیکنالوجی زیادہ ہے اور اس کے MiG-21 اور سخوئی طیارے کافی جدید ٹیکنالوجی رکھتے ہیں مگر اب شاید ہندوستانی MiG-20 کا زمانہ گزرا جا رہا ہے اور پاکستان طیاروں کے ساتھ ان کی جدید لڑائی میں جے ایف 17تھنڈر نے بھارتی مگ 20 پر زبردست برتری حاصل کر لی ہے۔
اب یقیناً مشرقِ وسطیٰ اور چھوٹی فوجی قوت کے حامل ملکوں کی پہلی ڈیمانڈ پاکستانی لڑاکا طیارہ جے ایف 17 بن جائیگا۔ پاکستانی فضائیہ نے پہلے بھی بھارت کے خلاف 1965 میں فضائی برتری حاصل کی تھی اور اس کے بعد پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے خلاف 1967 اور 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں فضائی برتری قائم کی تھی۔ شاید وہی پرانے زخم ہیں جو اسرائیل کو ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کا مقابلہ کرنے پر اکساتے ہیں۔ پاکستان نے در حقیقت 1996 میں میزائل ٹیکنالوجی میں رہنے، دفاع کو ایک نئی سمت دی تھی اور یہ بے نظیر بھٹو کا عہد اقتدار تھا جب ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنا تھا اور پھر اس کے بعد پاکستان نے 1999 میں ایٹمی دھماکے کر کے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیشہ کیلئے ہندوستانی جارحیت کے آگے دفاعی بند باندھ دیا تھا۔ ہندوستان اپنے ہمسائے چین سے سبق سیکھے جس نے جارحیت اور فوجی بل بوتے پر نہیں بلکہ اپنی معیشت کے بل پر پوری دنیا کو مطیع و فرمانبردار بنا چھوڑا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اب کشمیر محض جغرافیائی ٹکڑا نہیں بلکہ پاکستان میں زندگی کے ہر حوالے سے تنازع بن چکا ہے۔ بدلتی ماحولیاتی دنیا میں کشمیر کے گلیشیئر اور پہاڑ اور دریا پاکستان کیلئے اور بھی ضروری ہو چکے ہیں۔ بھارت جان لے خطے میں عام آدمی کی زندگی جنگ سے نہیں امن سے بدلے گی۔