لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس تیزی سے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے، سپریم کورٹ نے 16 جنوری کو اپنے فیصلے میں نیب کو دو ماہ میں تفتیش مکمل کرنے کا حکم دیا تھا، اس طرح 16 مارچ تک نیب کو تفتیش مکمل کرنی ہے، آئندہ چند ہفتے پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت کیلئے ہیجان خیز ہوسکتے ہیں، اس پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے سیاسی قلعہ یعنی سندھ اسمبلی کا دورہ کیا اور دھواں دار پریس کانفرنس میں خوب بھڑاس نکالی۔
بلاول بھٹو نے تحریک انصاف کی حکومت میں نظام انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا، ساتھ ہی کلیدی ریاستی اداروں میں شامل سپریم کورٹ، آئی ایس آئی، نیب اور جعلی بینک اکاؤنٹس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی سے متعلق بھی شکوے شکایات کا اظہار کیا۔ اس پس منظر میں اگلا ہفتہ تہلکہ خیز پیش رفت کے ساتھ نمودار ہوسکتا ہے، یہ بات کسی حد تک یقینی ہوچکی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں آصف زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، فریال تالپور، سندھ حکومت کے ٹھیکیدار، سندھ کی بیوروکریسی کی کلیدی شخصیات نیب کے تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہوں گی۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ ان پیشیوں کے دوران نیب مشکوک افراد کو گرفتار بھی کرسکتا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لئے سخت ترین امتحانی لمحات ہوں گے کیونکہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق اومنی گروپ کو حکومت سندھ کی جانب سے ملنے والی مراعات میں مراد علی شاہ کا پہلے وزیر خزانہ اور بعد ازاں وزیر اعلیٰ کے طور پر مرکزی کردار ہے۔
اس حوالے سے ماہر قانون فیصل صدیقی (جو جے آئی ٹی کے وکیل بھی تھے ) نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو نے سپریم کورٹ کے 7 جنوری کے آرڈر کے خلاف اس بنیاد پر ریویو پٹیشن دائر کی تھی کہ عدالت کے زبانی اور تحریری حکم میں تضاد ہے اس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے کی اور ساڑھے 4 گھنٹے کی سماعت کے بعد پٹیشن کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے درخواست گزار کے مؤقف کو تسلیم نہیں، انھوں نے کہا کہ آئین کے تحت ہر کسی کے خلاف تحقیقات ہوسکتی ہے، سپریم کورٹ نے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو ریلیف دی ہے ان کا نام ای سی ایل سے نکالا۔ عدالت نے قرار دیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ان کے خلاف ایکشن نہیں ہوگا لیکن اگر نئی تفتیش میں ان کے خلاف ثبوت آتے ہیں تو ایکشن لیا جاسکتا ہے۔ بلاول کو سپریم کورٹ کا فیصلہ دوبارہ پڑھ لینا چاہئے۔ در اصل بلاول چاہتے ہیں کہ انہیں تفتیش سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہئے لیکن پاکستان کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا وہ آرمی چیف ہوں یا چیف جسٹس ،وزیر اعظم ہوں یا کسی سیاسی جماعت کے سربراہ، قانون کے سامنے سب برابر ہیں اگر وہ کوئی جرم کرے گا تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ نیب تفتیش کے بعد اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ اس میں کون ملزم ہے ؟ کیا جرم ہوا ہے اور ان کے خلاف کیا کیس فائل کرنے چاہئیں؟۔ یہ سب نیب کا دائرہ اختیار ہے اگر کوئی جرم ہوا ہے تو ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ نیب بورڈ کرے گا۔ ممکن ہے ابتدائی طور پر دو تین ریفرنس فائل کئے جائیں، نیب سپریم کورٹ سے مدت میں توسیع کی درخواست بھی کرسکتا ہے۔
سندھ میں اربوں روپے کی کرپشن کا نیا پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کے دوران ایک کے بعد ایک غضب کرپشن کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ جے آئی ٹی اور نیب کی تحقیقات میں سندھ حکومت کی جانب سے آصف زرداری کے دوست انور مجید کے اومنی گروپ کو نجی بجلی گھر کے لئے 15 ارب روپے سے نوازنے کا نیا گھپلا سامنے آیا ہے جس میں من پسند کمپنی کے لئے 9 ارب روپے کا انتظام خود حکومت سندھ نے سود پر قرضہ لے کر کیا۔ نیب نے اس کیس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ، سابق سیکرٹری توانائی آغا واصف سمیت حکومت سندھ کے کئی اعلیٰ افسران کو شامل تفتیش کر لیا ہے، دونوں وزرائے اعلیٰ نے اومنی گروپ کی کمپنی کو ٹھیکہ دلوایا اور خلاف ضابطہ کمپنی کی معاونت کی، سندھ حکومت کو سوا دو ارب روپے کا بندوبست کرنا تھا اور 9 ارب روپے کی فنانسنگ کی۔ سندھ حکومت 9 ارب قرض پر سرکاری خزانے سے سود ادا کرے گی۔ سندھ بینک، نیشنل بینک ،انویسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے فنانسنگ کی گئی۔ اس حوالے سے دنیا نیوز کے نمائندہ خصوصی اختیار کھوکھر نے کہا کہ معاہدے کے مطابق سندھ حکومت کو صرف 15 فیصد فنانسنگ کرنا تھی، باقی سرمایہ کا انتظام کمپنی کو کرنا تھا لیکن حکومت سندھ نے نہ صرف اپنا حصہ ادا کیا بلکہ کمپنی کو بینکوں سے قرضہ لے کر دیا، 3 ارب روپے سندھ بینک اور 6 ارب روپے نیشنل بینک سے لئے گئے، سندھ حکومت نے اس کے عوض اپنے پی آئی ڈی بانڈز گروی رکھے۔ کمپنی کے ڈیفالٹ ہونے پر بینک یہ بانڈز ضبط کرسکتے ہیں ۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کمپنی کو نہ صرف بجلی گھر لگانے کا ٹھیکہ دیا گیابلکہ من پسند کمپنی کو ترسیلی لائن لگانے کا سوا ارب روپے کا ٹھیکہ بھی دیا گیا۔