(دنیا نیوز): فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ساتھ اسلام آباد میں مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ ایشیا پیسفک گروپ کا 6 رکنی وفد مذاکرات میں شریک ہے۔ پاکستان گرے لسٹ سے نام نکلوانے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور اس تناظر میں ان مذاکرات کے دوران ایف اے ٹی ایف حکام کو منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات سے آگاہ کیا جائے گا، بینک اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی پر بھی بریفنگ دی جائے گی جبکہ مشکوک ٹرانزیکشن کے خلاف اقدامات سے آگاہ کیا جائے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایف اے ٹی ایف کیا ہے جس کی گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کے کسی بھی ملک کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو 1989 میں جی 7 ممالک کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کے بنیادی مقاصد میں منی لانڈرنگ کو روکنا، معاشی حوالے سے مالی بے ضابطگیاں اور معاشی لحاظ سے ہر اس جرم پر نظر رکھنا جو لوگوں کے لیے کسی نقصان یا خطرے کا باعث سکتی ہیں۔ اس کی تشکیل کے وقت توجہ کا محور منی لانڈرنگ کو روکنا تھا مگر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد اس کے بنیادی مقاصد میں ایک اور نقطہ کا اضافہ کیا گیا۔ دہشتگردی کی مالی معاونت روکنا۔
ایف اے ٹی ایف کے موجودہ چیف مارشل بلنگ سیلا امریکا سے ہیں جبکہ وائس پریذینٹ ژیانگ منگ لو چائنہ سے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی فیصلہ ساز ٹیم ممبر ممالک کے نمائندوں پرمشتمل ہوتی ہے جو بنیادی طور پر ان ممالک و اداروں کی نشاندہی کرتی ہے جوکہ اس ٹیم کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت میں مبینہ طور پر ملوث ہوتے ہیں۔ اس ٹیم کے ممبر ایک سال میں تین بار فیصلہ سازی کے لیے ایک اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کا ہیڈ کوارٹر فرانس کے دارلحکومت پیرس میں واقع ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے ممبران کی تعداد 38 ہے جس میں یورپین کمیشن اور گلف کارپوریشن کونسل بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ گلف کارپویشن کونسل یا جی سی سی تنظیم میں کویت، عمان، سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور بحرین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے دو مبصر ممالک بھی ہیں جن میں سعودی عرب اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ پاکستان کو اس گرے لسٹ اور واچ لسٹ میں ڈالنے کی سفارش یا کوشش سب سے پہلے پانچ ممالک کی جانب سے کی گئی جن میں امریکا، یو کے، فرانس اور جرمنی، بھارت شامل ہیں۔
اس کوشش کو قرارداد بنا کر دو بار ووٹنگ کی گئی فروری 2018 میں ہونے والی اس ووٹنگ میں چین، جی سی سی اور ترکی نے کھل کر اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ جس کے بعد اس ووٹنگ کو مزید غور و فکر کے لیے جون تک ملتوی کردیا گیا۔ جبکہ مبصرین کے مطابق جون میں ہونے والی ووٹنگ کے لیے بھارتی ایماء پر امریکا نے اپنا دباؤ مزید بڑھایا جس کے نیتجے میں اس قرار داد کے حق میں ترکی کے علاوہ ہر ممبر نے ووٹ دیا۔ ترکی وہ واحد ملک تھا جس نے جون میں ہونے والی ووٹنگ میں بھی پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں کوئی بھی ملک جب شامل کیا جاتا ہے تو اسے ایف اے ٹی ایف کی کمپلائنس ڈاکیومنٹ کے تحت سخت سکرونٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ملک کے تمام بینکنگ سسٹم کی ٹرانزیکشن پر کڑی نگرانی کی جاتی ہے جس سے یقینی طور پر اس ملک کے معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ ورلڈ بنک کی 2017 سے 2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 5۔5 فیصد تھی اور گرے لسٹ میں نام آنے سے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 2 فیصد گرنے کا خدشہ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ بیرونی سرمایہ کاری کا کم ہوجانا ہے۔ اس کے علاوہ اس لسٹ میں آنے سے پاکستان کی برآمدات میں بھی اثر پڑسکتا ہے۔ یورپین ممالک کے ساتھ ہونے والی تجارت کافی حد تک متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بھاماس، کمبوڈیا، ایتھوپیا،سری لنکا، گھانا، تیونس، یمن، سربیا اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔ سربیا اس لسٹ میں واحد یورپی ملک ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں صرف دو ممالک ہیں جن میں شمالی کوریا اور ایران شامل ہیں۔ بلیک لسٹ میں آنے والے ملک کو انٹرنیشنل تنظیموں کسی بھی قسم کی کوئی مالی مدد یا قرض فراہم نہ کرنے کے پابند ہوجاتی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری وتجارت کا باب بند کردیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ایف اے ٹی ایف پوری دنیا میں مختلف گروپس کے ذریعے اپنے کام سرانجام دیتا ہے۔ براعظم ایشیاء کے لیے ایف اے ٹی ایف کا ایشیاء پیسیفک گروپ کام کرتا ہے۔ 9 مارچ کو پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے ایف اے ٹی ایف حکام کو خط لکھا جس میں بھارت کو ایشیاء پیسفیک کے شریک چیئرمین سے ہٹانے کی استدعا کی گئی تھی۔ یہ خط پاکستان بھارت کے درمیان ہونے والی کشیدگی اور فضائی جھڑپوں کے بعد لکھا گیا۔ اسد عمر کی جانب سے خط میں کہا گیا کہ چونکہ بھارت پاکستان روایتی حریف ہے اس لیے ایشیاء پیسفک میں اس کی موجودگی غیر جانبدار فیصلے کی راہ میں واضح رکاوٹ ہے۔ پاکستان نے مزید مطالبہ کیا کہ ایف اے ٹی ایف کی ممبر ممالک سے بھی بھارت کو نکالا جانا چاہیے کیوں کہ اس نے ایک خود مختار ملک پر حملہ کیا اور وہ آن ریکارڈ پر یہ بیان دے چکا ہے کہ وہ پاکستان کو تنہا کرے گا۔