لاہور: (روزنامہ دنیا) پاکستان نے سری لنکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارہ دو روز قبل اس کے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے ذمہ دار عناصر کا سراغ لگانے کے لئے بھرپور تعاون کرے گا، یہ پاکستان کا نہایت بروقت اقدام ہے بالخصوص اس لیے بھی کہ سری لنکا کے میڈیا نے ٹھوس شواہد کا انتظار کیے بغیر محض اندازوں کی بنیاد پر مجرموں کے بارے میں خبریں شائع اور نشر کرنا شرو ع کردی ہیں، انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ جس منظم طریقے سے یہ دہشت گردی ہوئی ہے اور جس بڑے پیمانے پر جانی نقصانات ہوئے ہیں وہ سب کچھ نیشنل توحید جماعت جیسے چھوٹے سے گروپ کیلئے کسی طور بھی ممکن نہیں تھا، یہ تو کسی ایسے منظم گروہ کا کام معلوم ہوتا ہے جو ملک کی ملٹری ایجنسی کی جڑوں میں چھپا بیٹھا ہو۔ تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ نیشنل توحید جماعت اپنے جنگجوئوں کو بھارتی علاقے تامل ناڈو میں دہشت گردی کی تربیت دیتی رہی ہے۔
یہ علاقہ ایک زمانے میں سری لنکا کے مخالف LTTE گروپ کا مرکز تھا اور بھارتی ایجنسی را LTTE کے تخریب کاروں کی خفیہ طور پر مدد اور سر پرستی کرتی تھی، را کا یہ کردار 1991 میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد بھی جاری رہا، دوسری بات یہ ہے کہ سری لنکا کے مسلمانوں سے جن کی تعداد بہت کم ہے داعش کا کبھی گہرا تعلق نہیں رہا، یوں بھی سری لنکا کے مسلمان دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ہمیشہ بہت دور رہے، اس کے باوجود یہ ذرائع ابلاغ داعش کی ویب سائٹ کا حوالہ دے کر یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ یہ کارروائی غیر ملکی دہشت گرد گروپ (ممکنہ طور پر داعش) نے کی ہے، ان حالات میں پاکستانی خفیہ ادارہ ہی یہ ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ یہ سب ‘‘افسانے ’’ ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، پاکستانی خفیہ ادارے کو طالبان جیسے مذہبی دہشت گردوں اور بی ایل اے جیسے سیکولر انتہا پسندوں سمیت ہر قسم کے تشدد پسند عناصر کے ساتھ نمٹنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے، اس سلسلے میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے اور جن کی ذمہ داری بھارتی حکومت نے سوچے سمجھے بغیر پاکستان پر عائد کردی ان میں ملزموں کو اردو سمیت پاکستان میں بولی جانے والی کسی بھی زبان پر عبور حاصل نہیں تھا۔
سری لنکا کے واقعے میں ملوث عناصر کے بارے میں بھی اطلاعات یہ ہیں کہ سری لنکا کے بعض علاقوں یا لسانی گروہوں کی زبان بول رہے تھے، دہشت گردی کے واقعات میں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ حملہ آور لباس اور وضع قطع سے کیا لگ رہے تھے، اس لیے کہ خطے میں متعدد واقعات ایسے ہوچکے ہیں جب حملہ آوروں نے بھیس بدل کر کارروائی کی۔ یہ معلوم کرنے کیلئے کہ حملہ آور کون تھے ان کی لاشوں کا بغور جائزہ لینا بھی اشد ضروری ہے، تفصیل میں گئے بغیر یہ کہنا کافی ہے کہ اس طرح کم از کم یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے یا غیر مسلم ؟ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد جس طرح پاکستان پر اندھا دھند الزام تراشی کی گئی اس کی وجہ سے اصل حقائق بے بنیاد پرا پیگنڈے کی دھول میں چھپتے چلے گئے، یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ سری لنکا کی حکومت نے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ اس خونیں واقعے اور مجرموں کی نسلی، مذہبی، سیاسی اور قومی وابستگی سے متعلق کسی قیاس آرائی کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔
علاقائی صورتحال اور سری لنکا کی اندرونی سیاسی کشمکش کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ پتا لگانا ضروری ہے کہ اس دہشت گردی سے فائدہ کس کو ہوا ؟ یا پھر یہ کہ وہ کون عناصر ہیں جو اس المیے کو اپنے سیاسی یا گروہی مفادات کیلئے استعمال کرسکتے ہیں ؟ اگر یہ کارروائی LTTE نے کیا تھا (جیسا کہ میرا بھی خیال ہے ) تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 10 سال قبل شکست سے دوچار ہونے کے بعد اب یہ گروپ دوبارہ مضبوط اور متحرک ہوگیا ہے۔ چونکہ اس گروپ کا سری لنکا میں کئی سال پہلے ہی صفایا ہوچکا ہے اس لیے اب یہ جائزہ لینا ہوگا اس کے حامی کس ملک میں محفوظ رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں کو برقرار رکھتے رہے ؟ اس کے علاوہ اگر خیال یہ ہے کہ کوئی بیرونی طاقت یا ملک اس دہشت گردی کے پس پشت تھا تو لازمی طور پر یہ دیکھنا ہوگا کہ کس ملک کو اس کارروائی سے زیادہ فائدہ ہوا؟ اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ سری لنکا سے مخاصمت کی وجہ سے پہلے تو بھارت طویل عرصے تک LTTE کی خفیہ طور پر پشت پناہی کرتا رہا، لیکن جب بھارت نے اس کی حمایت ترک کردی تو LTTE نے راجیو گاندھی کو قتل کر دیا۔
1990 کے عشرے کے تقریباً نصف دور میں ہی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ذمہ داروں نے LTTE کے ساتھ اپنے رابطے بحال کرلیے، اس کا مقصد خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں کرنا تھا، را نے ایسا ہی کردار پاکستانی صوبے بلوچستان میں ادا کیا۔ اس وقت چین اور پاکستان کے ساتھ سری لنکا کے انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں اور یہ مراسم وسعت پا رہے ہیں، ان حالات میں یہ بھارت ہی ہے جو سری لنکا کو چین نکے زیادہ قریب جانے پر سزا دے سکتا ہے اس پس منظر میں کوئی تعجب نہیں کہ بھارت نے درپردہ LTTE کو دوبارہ منظم ہونے میں مدد فراہم کی ہو اور سری لنکا میں دہشت گردی کیلئے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی ہو، حیرت کی بات ہے کہ یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ خونیں کارروائی کس نے کی ہے، اسلاموفوبیا میں مبتلا عناصر نے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ بھارتی حکمران جماعت پوری کوشش کر رہی ہے کہ اس دہشت گردی کا ذمہ دار سری لنکا کے مسلمانوں کو قرار دے دیا جائے، ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں بی جے پی کیلئے اپنے انتہا پسندانہ ہندو پروگرام کو آگے بڑھانا آسان ہو جائے گا۔
دہشت گردی کے تناظر میں منشیات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اکثر دہشت گرد حملے سے پہلے اور حملے کے دوران بھی منشیات کے زیر اثر ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ حملے سے قبل جن مقامات پر دہشت گردوں نے قیام کیا تھا ان کا فرانزک تجزیہ کرایا جائے، اس کے بعد متعلقہ حکام کو یہ معلوم کرنے میں آسانی ہوجائے گی کہ یہ منشیات کہاں سے حاصل کی گئیں اور کن لوگوں نے یہ منشیات حاصل کیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجرموں کا منشیات کے سمگلروں کے کسی گروہ سے تعق رہا ہو، سری لنکا کے اس واقعے میں مسلمانوں کو ملوث قراردینے والے اسلام مخالف عناصر یہ بھول رہے ہیں کہ سری لنکا 10 برس سے زیادہ عرصے تک دہشت گردی کا شکار رہا، اس طویل عرصے کے دوران ملک کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں ہوا، اس کے برعکس سری لنکا کو LTTE اور بائیں بازو کی انتہا پسند جماعت JVP کی وجہ سے شدید نقصانات ہوئے، واضح رہے کہ دونوں گروپوں کے ارکان کی غالب اکثریت کا تعلق ہندو مذہب سے ہے۔
اس بات کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے ساتھ فروری کے دوران محاذ آرائی کی جو صورتحال پیدا ہوئی تھی اس سے حکمران جماعت بی جے پی کو مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہوسکے تھے، ایسی صورت میں کہ بھارت میں انتخابات بدستور جاری ہیں بی جے پی کیلئے ضروری ہوگیا تھا کہ خطے میں ایسی کوئی کارروائی ہو جس سے اسے فائدہ پہنچ سکے، یہ بات اب پاکستان کے مقابلے پر آکر تو ممکن نہیں رہی اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ چھوت سے بے چارے ملک سری لنکا کو ہدف بنایا گیا ہو، یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ 2018 کے دوران سری لنکا کے صدر سری سینا کو یہ خطرہ محسوس ہوگیا تھا کہ ‘‘را’’ کہیں انہی قتل نہ کر دے کیونکہ اس وقت ان کی کوشش تھی کہ وزیر اعظم کو ہٹا کر سابق صدر مہندا راجاپاکسے کو ان کی جگہ وزیر اعظم مقرر کر دیں، واضح رہے کہ راجاپاکسے نے اپنی صدارت کے دوران چین کے ساتھ گرمجوش دوستانہ تعلقات استوار کیے تھے۔ اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ سری لنکا میں یہ دہشت گردی بیجنگ میں ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے چند روز قبل کی گئی، اس فورم میں سری لنکا کو بھی اہم کردار ادا کرنا تھا، اس حملے کی وجہ سے سری لنکا کی معیشت کو بھی دھچکا لگنے کا خطرہ ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر بھارتی ذرائع ابلاغ کسی جواز کے بغیر سری لنکا کی دہشت گردی میں پاکستان کو ملوث قرار دینے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں جو حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بہر صورت سری لنکا کے اس المناک واقعے کی درست تحقیقات کیلئے لازم ہے کہ اوپر درج کیے گئے حقائق سمیت تمام پہلوئوں کا نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ بغور جائزہ لیا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں پاکستانی خفیہ ادارہ بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس لیے کہ اس کا پیشہ ورانہ تجربہ، مقصد سے لگن اور مہارت تسلیم شدہ امر ہے۔
(یوریشیا فیوچر)