لاہور: (دنیا کامران خان کے ساتھ) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے سب سے مشکل وفاقی بجٹ کے آنے کے بعد اب غبار چھٹ رہا ہے اور بجٹ کی حقیقی تصویر سامنے آرہی ہے۔ یہ بجٹ پاکستان کی لاغر معیشت کو سہارا دینے کے لئے لایا گیا ہے، اس میں شک نہیں کہ بجٹ میں ٹیکس لگائے گئے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور ہر پاکستانی مہنگائی کے اس درد کو محسوس کرے گا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت ہی سخت زمانہ سامنے آئے گا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ بیمار معیشت کی صحت کو بہتر بنانے کیلئے اس میں ٹھوس اقدامات تجویز کئے گئے ہیں جو اس سے پہلے نہیں لئے گئے اور معاشی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں جن کو سراہا جانا ضروری ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں پہلی بار ٹھوس اور معنی خیز کوشش ہورہی ہے کہ معیشت کودستاویزی بنایا جائے اس حوالے سے بجٹ میں بہت سے مواقع موجود ہیں۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ ٹیکس فائلرز میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے جس سے پاکستان کی بہت بڑی شرمندگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی ایک اور بڑی مثبت پیش رفت یہ ہے کہ بیٹھے بٹھائے منافع کمانے کے عمل کو اس بجٹ میں رد کیا گیا اور سودی منافع بھی پر کشش نہیں رہیں گے۔ اب پیسے کو پیداواری معیشت میں کھپانا ہو گا۔ پراپرٹی مارکیٹ میں سٹے بازی نہیں ہوگی اس سرمایہ کو بھی پیداواری معیشت میں لانے کے لئے بہت ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پلاٹس، مکان اور فلیٹس سستے ہو جائیں گے، ایک عام آدمی کی دسترس میں آجائیں گے۔ یہ یقیناً بہت ہی احسن صورتحال ہے جو ہم اس بجٹ کے نتیجے میں دیکھ سکتے ہیں بجٹ کے آنے کے بعد آج کی صورتحال کیا ہے ؟ اس کے اثرات پاکستان اور عام پاکستانی پر کیا ہوں گے؟۔
اس حوالے سے تنظیم "آباد" کے چیئرمین حسن بخشی نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹرمیں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی، اب یہ دور ہے کہ زیادہ ٹیکس دینے والے کی زیادہ عزت ہوگی، پہلے ٹیکس بچانے والے کو ہوشیار قرار دیا جاتا تھا، صوبائی حکومت کو بھی رئیل اسٹیٹ کیلئے اچھے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی ہم سمجھتے ہیں کہ 6 ماہ تک مارکیٹ رک جائے گی کیونکہ نئی چیزیں ہیں ان لوگوں کو راستہ دینا پڑے گا جنہوں نے تین سال میں پراپرٹی لی ہے۔
ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ حکومت کا اس پر فوکس نظر آتا ہے کہ وہ ہر چیز کو حقیقی ٹیکسیشن کی طرف لے کر جانا چاہتی ہے یعنی اگر آپ زیادہ کما رہے ہیں تو کمائیں لیکن زیادہ ٹیکس بھی دیں، اب نان فائلر پر دگنا ٹیکس ہے، اس سے بچنے کیلئے ریٹرن فائل کرنا ہوگی، انھوں نے کہا کہ ایمنسٹی سکیم کی آخری تاریخ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر امجد وحید سی ای او نیشنل بینک فنڈز نے کہا کہ پاکستان میں لوگوں نے کیا کیا ہوا ہے، ٹیکس سے بچنے کے لئے ایک پلاٹ خرید لیا ایک دو سال اپنے پاس رکھا اس پر دو تین کروڑ کا منافع کمایا اور بیچ دیا لیکن ٹیکس کا ایک پیسہ نہیں دیا اب ایسا ممکن نہیں ہوگا انہیں پلاٹ پر کیپیٹل گین ٹیکس دینا پڑے گا اسی طرح بینک میں پیسے رکھ دیئے اور ان پر کبھی ٹیکس ادا ہی نہیں کیا اب یہ پیسہ غیر پیداواری سکیموں سے کاروبار میں لگے گا اب ہم دستاویزی معیشت کی طرف جا رہے ہیں یہ پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ ریئل اسٹیٹ میں بڑے طاقتور لوگ ہیں اس پر تو ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ زراعت سمیت تمام شعبوں پر ٹیکس لگنا چاہئے۔
فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس پاکستان کے سابق سینئر نائب صدر مظہر علی نے کہا کہ یہ بجٹ اصلاحات کا بجٹ ہے اور اس میں سارا فوکس معیشت کو دستاویزی بنانے پر ہے۔