لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) حکومت کی جانب سے سابق حکمرانوں سے سرکاری خزانے سے خرچ کئے جانے والی رقوم کی وصولی کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس میں آٹے، گھی اور دیگر اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کا بھی نوٹس لیا گیا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ اس حوالے سے کیا اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔ فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح ماضی کی حکومتوں کی کرپشن اور لوٹ مار ہے جبکہ ملک کو در پیش اصل سلگتے مسائل خصوصاً ڈوبتی ہوئی معیشت، مہنگائی، بے روزگاری کا طوفان، غیر یقینی کی صورتحال سمیت دیگر بڑے مسائل در پیش ہیں یہ کون حل کرے گا ؟ آخر عوام کی منتخب حکومت کی اصل ذمہ داری اور اس کا مینڈیٹ کیا ہے ؟ عمران خان کی حکومت سے توقع یہی باندھی جا رہی تھی کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کو در پیش سنگین معاشی بحران کے حل سمیت کرپشن اور لوٹ مار کا سدِ باب کریں گے۔
عوام اور جوانوں کیلئے خصوصی کشش یہ تھی کہ اب بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا اور مسائل زدہ عوام کو ریلیف ملے گا۔ اگر حکومت کی حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت ملک کو در پیش اصل ایشوز کے حل کیلئے اقدامات میں ناکام نظر آ رہی ہے اور اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پر جوابدہ ہونے کے بجائے ماضی کی حکومتوں کے خلاف اعلانِ جنگ اور ان کی کرپشن پر چیخ و پکار کر کے ایسی صورتحال طاری کرنا چاہتی ہے جس سے پاکستان کو در پیش اصل مسائل پر توجہ نہ پڑ سکے۔ لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے ملک کے تمام طبقات بالخصوص عوام میں بیزاری اور یہ سوچ عام ہو رہی ہے کہ آخر یہ حکومت کس مرض کی دوا ہے اور اقتدار میں آنے سے پہلے جو دعوے اور نعرے لگائے تھے وہ محض سہانے خواب تھے اور عمل نام کی کوئی دوا یا نسخہ وزیراعظم کے دفتر اور کابینہ میں موجود نہیں۔
قوم بظاہر ماضی کی کرپشن سے بیزار تھی، ان کی حمایت ہی وزیراعظم عمران خان کو اقتدار میں لائی۔ لوگ اس سے بھی واقف تھے کہ حکمران ان کے ٹیکسوں کے پیسے سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ لوگوں کو بڑھتے بیرونی قرضوں کا بھی احساس تھا۔ مگر انہیں عمران خان کے نعرے ایسے بھائے تھے کہ انہیں شہیدِ اقتدار لا بٹھایا مگر اب پوری قوم کو احساس ہو رہا ہے کہ بہتری کو لائحہ عمل بنانے کے بجائے تبدیلی کا روڈ میپ لائے بغیر محض نعروں اور الزامات سے مخالفین کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں اور عوام کا طرزِ زندگی ماضی سے بہت حد تک بدترین نہج پر چلا گیا ہے ۔ یہ صورتحال واضح طور پر بتا رہی ہے کہ حکومت کی تیاری ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ ان کے پاس کوئی بڑا اور قابل عمل معاشی منصوبہ نہیں ہے۔ ان کی نظر اور ترجیح میں ہرگز ہرگز ادارہ جاتی اصلاحات نہیں۔
معاشی بحران سے نمٹنے کی پالیسی یا منصوبہ بندی ، حکمت اور بصیرت سے کوسوں دور ہے۔ اس حکومت نے اب تک کوئی بڑا ترقیاتی پراجیکٹ شروع نہیں کیا حتیٰ کہ مرغی اور انڈوں سے معیشت مضبوط بنانے کا منصوبہ یا پلان تقریر تک محدود رہا، حالانکہ ملک اس وقت جس معاشی بحران سے گزر رہا ہے یہ وقت فی الفور ایک زبردست صنعتی پالیسی یا انڈسٹریلائزیشن کا تقاضا کر رہا ہے۔ اور اس تمام عمل کو ہمسایہ ملک چین بھرپور سپورٹ دینے کا خواہاں بھی ہے مگر حکومت کے کلیدی وزیر کرپشن الزامات کی فائلیں اپنی بغلوں میں دبائے ہر جگہ گفتگو فرما رہے ہوتے ہیں۔ حکومت کے ایک سال میں ہمیں کوئی ایسا منصوبہ نظر نہیں آیا جس سے حکومت کے عوامی خدمت کے جذبے کا اندازہ لگایا جا سکے۔ وزیراعظم عوامی خدمت کے جذبے سے معمور ہو کر تقریریں تو ضرور کر رہے ہوتے ہیں اور عوام کے تحفظ اور احساس کیلئے احساس پروگرام شروع کرنے کا پتا بھی ہے مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ غریب عوام جو اب مہنگائی کے سیلاب میں جینے کا ہنر بھول بیٹھے ہیں۔
عوام روٹی، روزگار، بہتر طرز زندگی سے نیچے گر رہے ہیں۔ وزیراعظم عام آدمی کی جتنی مرضی مدد کرلیں مگر ان کی معاشی پالیسی عام آدمی سے عزت اور خودی کے ساتھ جینے کا حق چھین رہی ہے۔ سفید پوش طبقہ اب براہِ راست امداد کے سہارے زندگی بسر کرنے کی طرف چلا گیا ہے۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے مہنگائی کا نوٹس ضرور لیا ہے، مگر وزیراعظم یہ نوٹس اپنے اقتدار کے 11 ماہ میں کئی مرتبہ لے چکے ہیں۔ دوسری طرف الزام کرپشن اور احتساب کا یکطرفہ ڈنڈا چلاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کیا مگر وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزرا نے کرپشن الزامات کا طوفان برپا کر دیا تا کہ لوگ ایک لمحے کو بھول جائینگے کہ پاکستان خطے کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ شرح سود بڑھ گئی ہے اور مزید مہنگائی کی امید ہے۔ لہٰذا حکومتی پالیسی کو ذہن میں رکھیں تو مزید کرپشن کہانیوں کا ذکر اور شور برپا ہوگا۔