اسلام آباد: (تجزیہ: خاور گھمن) چیئرمین سینیٹ کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ وزیر ا عظم آزاد اور سابقہ فاٹا کے سینیٹرز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں بھی صف بندی کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کو عہدے سے ہٹانے کیلئے 104 کے ایوان میں 53 ارکان کی حمایت درکا رہے جبکہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن اتحاد کے پاس بظاہر 65 سے 67 اراکین موجود ہے۔ اپوزیشن جماعتیں سینیٹ اجلاس بلانے کیلئے 9 جولائی کو ریکوزیشن جمع کروا کر چکی ہیں، یوں آئینی طور پر چیئرمین سینیٹ اب 14 دن کے اندر یعنی 23 جولائی تک اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ عام حالات میں صدر پاکستان کے پاس یہ آئینی اختیار ہوتا ہے کہ وہ جب بھی اجلاس بلانا چاہیں بلا سکتے ہیں۔ وزارت پارلیمانی امور اس سلسلے میں صدر مملکت کی رہنمائی بھی کر سکتی ہے لیکن آ ئینی طور پر سینیٹ کے 2 اجلاسوں میں 120 دن سے زیادہ کا وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔ آخری اجلاس 24 جون کوبلایا گیا تھا ، اس حساب سے سینیٹ کا آئندہ اجلاس 24 اکتوبر تک ہو جانا چاہیے۔
دوسری جانب سینیٹ سیکرٹریٹ میں مختلف آئینی اور قانونی آپشنز پر غور ہو رہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کیلئے اجلاس کب بلایا جائے ؟ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان کے بلائے ہوئے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو سکتی ہے جبکہ چیئرمین سینیٹ کے قریبی حلقوں کا ماننا ہے کہ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اجلاس چیئرمین سینیٹ خود بلاتا ہے اس لیے آئینی طور پر اس اجلاس میں اس کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکتی، اس کیلئے روٹین کے اجلاس کا ہی انتظار کرنا چاہیے جسے بلانے کا اختیار صرف صدر پاکستان کے پاس ہے۔
ایک اور دلچسپ صورتحال یوں بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ اگر چیئرمین صادق سنجرانی اپوزیشن کے بلائے گئے اجلاس میں اپنے خلاف پیش کر دہ تحریک پر ووٹنگ کرائے بغیر ہی اجلاس ملتوی کر د یں تو تحریک عدم اعتماد آئینی طور پر طے شدہ مدت کے لحاظ سے مزید 120 دن تک لٹک سکتی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق چیئرمین اجلاس بلانے کی بجائے رولنگ بھی دے سکتے ہیں کہ سینیٹ قواعد کے مطابق بحیثیت چیئرمین وہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے اجلاس نہیں بلا سکتے اس لیے اپوزیشن صدرمملکت کی جانب سے اجلاس بلانے کا انتظار کرے۔ اس طرح صادق سنجرانی حکومت کی مدد سے 24 اکتوبر تک اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں۔
آئینی اور قانونی موشگافیاں ایک طرف رکھ کر بات سیاست کے کھیل کی کی جائے تو یہ وہی چیئرمین سینیٹ ہیں جنہیں اس کرسی پر بٹھانے کا بڑا کریڈٹ پیپلز پارٹی سمیٹتی رہی ہے لیکن اب حالات رخ بدل چکے ہیں تو پیپلز پارٹی نے بھی ا پنی سمت کا از سر نو تعین کرلیا ہے۔ نواز شریف کے ساتھ آصف زرداری بھی قید میں ہیں تو دونوں سیاسی جماعتیں بھرپور رد عمل کا اظہار چیئرمین کو تبدیل کر کے کرنا چاہتی ہیں اور حکومت سے زیادہ مقتدر حلقوں کو پیغام دینا چاہتی ہیں کہ سیاسی میدان میں جلدی ہار ماننے والے وہ بھی نہیں۔ حکومت نے بھی جوابی وار کرتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔
اس گرم سیاسی ماحول کے باجودہ وفاقی دارالحکومت میں بعض حلقوں کا اب بھی خیال ہے کہ بظاہر عددی اکثریت ہونے کے باوجود خفیہ رائے شماری میں چیئرمین سینیٹ بچ سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اب بھی آصف علی زرداری کیلئے رعایتیں لینے کے عوض آخری وقت میں اپوزیشن کی پیٹھ میں خنجر گھونپ سکتی ہے، کیونکہ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ (ن ) لیگ کو مل بھی گیا تو پیپلز پارٹی کو انا کی تسکین سے زیادہ کچھ نہیں ملنے والا جبکہ سودے بازی میں فائدہ ہو سکتاہے۔ اس سے ایک قدم آگے جائیں تو کیا یہ طے ہے کہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے سارے سینیٹرز چیئرمین سینیٹ کیخلاف ووٹ دیں گے ؟
اگر مگر اور جمع تفریق کے بعد اگر اپوزیشن اپنا چیئرمین سینیٹ لے بھی آتی ہے تو حکومت کو خاص فرق نہیں پڑے گا۔ طاقت کا اصل منبع قومی اسمبلی ہے جہاں حکومت کو اکثریت حاصل ہے اور قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ لیکن یہاں اپوزیشن کوایک قومی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ قومی سیاست میں پہلی بار ایسا ممکن ہوا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی نشست بلوچستان کو ملی، ایک ایسا صوبہ جو محرومیوں کیساتھ وفاق سے ہمیشہ شاکی رہا، جہاں بیرونی دشمن ہر وقت نقب لگائے بیٹھا رہتا ہے کہ کب کسی چنگاری کو ہوا دیکر شعلہ بنا دے۔ یوں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا یہ فیصلہ نوجوان قیادت بلاول بھٹو اور مریم نواز کی سیاسی دور اندیشی اور بصیرت کا امتحان بھی ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ، فیصلہ جلد ہو جائے گا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے بعد اپوزیشن جماعتیں آرام سے بیٹھ جائیں گی ؟ ان کی انا کی تسکین ہوجائے گی ؟ اور کیا جن حلقوں کو چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے پیغام دیا جانا مقصود ہے ، وہ اپنا رد عمل نہیں دیں گے ؟ موجودہ حالات میں اپوزیشن کی یہ ساری کارروائی مشق لاحاصل ہی نظر آ تی ہے۔ 2021 ء میں سینیٹ انتخابات ہوں گے تو تحریک انصاف کی واضح اکثریت یقینی ہے جس کے بعد چیئرمین شپ ایک بار پھر حکومت کومل جانی ہے ، اس وقت تک اپوزیشن اکثریت کے بل بوتے پر سینیٹ میں زیادہ سے زیادہ حکومتی بل ہی ردکر سکتی ہے اور یہ نئی بات نہیں ، یہ فریضہ اپوزیشن پہلے سے بخوبی انجام دے رہی ہے۔ اپوزیشن کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اور یہ کبھی تحلیل نہیں ہوتی۔ اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے تو اسے دیگر سیاسی ایشوز کی بنیاد پر زورِ بازو آزمانا ہوگا۔