لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) حکومت کی جارحانہ پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اب اپوزیشن نے بھی تیاری پکڑ لی ہے اور ان کے بقول حکومت جس زبان میں جواب دیگی اسے اسی زبان میں جواب دیاجائیگا۔ اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ آج ملک بھر میں اپوزیشن میں شامل تما م جماعتیں اپنی اپنی سطح پر احتجاج کریں گی۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن ) بڑا جلسہ کریگی، شہباز شریف ، مریم نواز لاہور جبکہ بلاول سندھ او رمولانا فضل الرحمن خیبر پختونخوا میں بڑے جلسے سے خطاب کریں گے۔ بہت جلد اپوزیشن مشترکہ جلسے بھی کریگی او ر حکومت پر دبائوبڑھائے گی۔ اپوزیشن نے اعلان کیا ہے کہ پوری اپوزیشن کو بھی گرفتار کرلیا جائے تب بھی تحریک نہیں رُکے گی۔ شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے بعد آنیوالے دنوں میں مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔
حکومتی وزراء اعلان کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے فلاں فلاں فرد گرفتار ہونے والے ہیں ۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ احتساب کا عمل یکطرفہ ہے او ر حکومت کے لوگ احتساب کے عمل سے باہر نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن بڑی شدت سے اس مسئلے کو اجاگر کر رہی ہے۔ حکومت کی جارحانہ پالیسی کی وجہ سے ہی اس وقت اپوزیشن جماعتوں میں یہ احساس بڑھ گیا ہے کہ اگر ہم نے سیاست کرنی ہے تو مشترکہ حکمت عملی کے تحت ہی آگے بڑھنا ہوگا یکطرفہ اپوزیشن کا کردار حکومت کو کسی بڑی مشکل میں نہیں ڈال سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت مسلم لیگ (ن )، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی ، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی ایک دوسرے کے قریب ہیں او رمشترکہ حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ وہ ایک ہوکر حکومت کو بڑا سیاسی سرپرائز دے جہاں تک چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا معاملہ ہے نمبرز گیم میں اپوزیشن کا پلڑا بھاری ہے مگر لگتا ہے یہ کھیل آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس ایشوپر لوٹا کریسی کا کھیل بھی سامنے آسکتا ہے۔ حکومت نے بھی جوابی حملے کے تحت ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیخلاف قرار دادپیش کی ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو سیاسی طور پر فتح کرنا چاہتے ہیں ۔ فتح کس کی ہوگی اس کا فیصلہ چند دنوں میں ہوجائیگا۔ مگر ایک بات طے ہے کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی جنگ عروج پر ہے اور ایک دوسرے پر سبقت کیلئے الزام تراشیوں کا کھیل جاری ہے۔ یہ بھی لگتا ہے کہ دونوں کے پاس کوئی قومی ایجنڈا نہیں اور محاذ آرائی کا کھیل زور پکڑ چکا ہے۔
وزیر اعظم نے دورہ امریکہ میں بھی بڑے سیاسی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا لگتا ایسے تھا کہ وہ امریکہ میں نہیں پاکستان کے کسی بڑے شہر میں جلسے سے خطاب کر رہے ہیں ان کا اپوزیشن کے بارے میں لب ولہجہ کافی سخت تھا وہ صاف کہتے ہیں کہ وہ کسی صورت کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم سے کون براہ راست این آر او مانگ رہا ہے اس کا کوئی ذکر وہ نہیں کرتے جو ظاہر کرتا ہے کہ حکمران جماعت بھی این آر او کے حوالے سے سیاست کررہی ہے ۔ جہاں تک احتساب کا تعلق ہے تو صاف لگتا ہے کہ حکمران جماعت میں شامل افراد کے حوالے سے احتساب کا عمل خاموش ہے جو ظاہرکرتا ہے کہ احتساب’’سلیکٹیڈ‘‘ہورہا ہے ۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب نے وزیر اعظم کی ہدایت پر پنجاب کی کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں ۔ صمصام بخاری کی وزرات کو تبدیل کیا گیا ۔ نئے وزیر اطلاعات کیلئے میاںاسلم اقبال کو ذمہ داری دی گئی ہے ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومت ان سے کس حد تک مطمئن ہوتی ہے کیونکہ بہت سے صوبائی وزرا ء جارحانہ پالیسی اپنانے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔
علاوہ ازیں اپوزیشن کی جانب سے آج قومی انتخابات میں دھاندلی ، بڑھتی مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت سمیت حکومتی پالیسیوں کیخلاف یوم سیاہ منایا جا رہا ہے ۔ اس حوالے سے لاہور مال روڈ پر احتجاجی ریلی ہو رہی ہے، اپوزیشن کو عوامی سطح پر کس حد تک پذیرائی ملتی ہے یہ آج کے احتجاج سے ظاہر ہو گا لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ ابھی تک منتخب حکومت کی جانب سے عوام کیلئے کوئی ریلیف نہ ہونے سے مایوسی اور بے چینی پیدا ہوئی ہے ۔ حکومت نے اس جانب توجہ نہ دی تو پھر مہنگائی زدہ عوام کسی نہ کسی احتجاجی عمل کا حصہ ضرور بنیں گے اور پھر اس طوفان کو روکنا حکومت کے بس میں نہیں رہے گا۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں بڑا بریک تھرو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا ہوا ۔ امریکی صدر کے مطابق کچھ ماہ قبل بھارتی وزیر اعظم نے ان سے کہا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر کردار ادا کریں ۔ اگرچہ بھارت نے فوری طور پر تردید کی ہے کہ مودی نے کوئی پیشکش امریکی صدر کو نہیں کی اور ہم کسی تیسرے فریق کے حامی نہیں ۔ لیکن پاکستان کی یہ بڑی سفارتی کامیابی ہے کہ امریکی صدر نے ثالثی کی پیشکش کی او ر یہ پاک، امریکہ تعلقات او ربھارت کے تناظر میں بڑی پیش رفت ہے ۔ کشمیری بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے ۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد بھارت میں مودی سرکار کیخلاف کافی شور اٹھا ہے او ر کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر کے بیان سے پاکستان کو سفارتی کامیابی ملی اور ہمیں کافی دھچکا لگا نریندر مودی کو بطور وزیر اعظم پارلیمینٹ میں جوابدہ ہونا ہوگا کہ کیا انہوں نے ایسی کوئی پیشکش کی تھی یا امریکی صدر نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے ۔اگر ایسا ہے تو بھارت کو امریکہ کو واضح جواب دینا چاہیے۔
امریکی صدر نے افغانستان کے بحران کے حل میں بھی پاکستان کے کردار کو سراہا ہے او رکہا ہے کہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر افغانستان کا بحران حل نہیں ہوگا۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاویدباجوہ او ر امریکی فوجی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں اور دورہ پینٹا گون میں بھی دو طرفہ فوجی تعاون اور افغانستان کے بحران میں پاکستان کے کردار پر بات چیت ہوئی۔ ایسا لگ رہا ہے کہ علاقائی سطح پر پاکستان کا کردار اہم ہوگیا ہے او امریکہ کو بھی اس بات کا احساس ہو چکاہے کہ پاکستان کی خطے میں اہمیت ہے او را نہیں پاکستان کے ساتھ مل کر خطے کی سیاست میں کردار ادا کرنا ہوگا۔