اپوزیشن والے توپ چلانا چاہتے تھے، غبارہ بھی نہ پھٹا

Last Updated On 02 August,2019 09:22 am

لاہور: (دنیا نیوز) وزیر اعظم عمران خان آج پھولے نہیں سما رہے انھیں اتنی بڑی کامیابی ملی ہے جس کی ٹائمنگ الیکشن 2018 میں کامیابی سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اگرچہ عمران خان اور ان کی پارٹی ایک مشکل صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں مگر اس موقع پر سینیٹ آف پاکستان میں انھیں سرپرائز کامیابی ملی۔

میزبان  دنیا کامران خان کے ساتھ  کے مطابق حزب اختلاف کی جماعتوں کو اپنے اتحاد کا ثبوت دینا تھا اور اس کا با معنی اظہار کرنا تھا اور وہ اظہار اس طرح سے ہوتا کہ وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرا دیتے۔ اپوزیشن کے نمبرز واضح تھے۔ اپوزیشن کے 64 اور حکومت کے 36 ووٹ تھے گویا کہ کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا لیکن نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی۔ یہ ایک ہلا دینے والی پیش رفت ہے۔ حزب اختلاف کے لئے حوصلہ شکن کیفیت ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کے 64 اراکین میں سے 14 اراکین نے خفیہ بغاوت کر دی۔ حزب اختلاف کے خلاف انہی کے اراکین کی بغاوت سامنے آئی۔ ووٹنگ سے پہلے 64 اراکین نے کھڑے ہو کر تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی تھی مگر چند لمحوں کے اندر یہ صورتحال بدل گئی اور حزب اختلاف کے یہ اراکین ووٹنگ کی گنتی میں 64 سے 50 رہ گئے۔ ان میں سے 9 اراکین نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا اس طرح حکومت کے اراکین کی تعداد سینیٹ میں 36 سے 45 ہو گئی جو کہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا۔

دوسری جانب حزب اختلاف 53 ووٹ حاصل نہیں کرسکی، اس کے 5 اراکین کے ووٹ مسترد ہو گئے کیونکہ انھوں نے ووٹ درست طریقے سے نہیں ڈالے تھے۔ وہ یہی چاہتے تھے کہ ان کے ووٹ مسترد ہو جائیں گویا 14 اراکین نے بغاوت کر دی۔ اپوزیشن کو سیاسی شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس بارے میں حالیہ دنوں میں بھی شکوک و شبہات ظاہر کئے جا رہے تھے کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد فطری نہیں تھا، ان کا واقعی دل سے ایک دوسرے سے جڑ جانا ایک مشکل عمل ہے۔ ایک جانب نواز شریف جیل میں قید ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف بھرپور کیسز ہیں۔ آصف زرداری اس وقت نیب کی قید میں ہیں۔ آصف علی زداری پر شدید دباؤ ہے، اس پس منظر میں نجانے کس نے کس کا ہاتھ پکڑ لیا اور حزب اختلاف کو سرپرائز شکست دی۔ وزیر اعظم عمران خان کو بہت بڑی کامیابی ملی ہے اور ان کی ہر لحاظ سے ہمت افزائی ہوئی ہے اس کے ساتھ اپوزیشن اتحاد کے اندر دراڑیں کھل کر سامنے آئی ہیں اپوزیشن ارکان میں باقاعدہ بغاوت ہو گئی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ اپوزیشن اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

اس صورتحال کے حوالے سے ممتاز سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کہا کہ سینیٹ میں ارکان نے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دیں گے اور پارٹی لیڈران کی سیاست، مولانا فضل الرحمن کی سیاست، بلاول، شہباز شریف اور مریم نواز کی سیاست انہیں کنٹرول نہیں کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان کو ایک اور موقع ملا ہے کہ وہ اپنا کام کریں اور اپوزیشن کی مزاحمت کو خاطر میں نہ لائیں۔ حزب اختلاف نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے وہ توپ چلانا چاہتے تھے لیکن غبارہ بھی نہ پھٹ سکا، بلکہ ان کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنی کامیابی کا یقین تھا لیکن یہ ہمارے لئے بھی سرپرائز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ایک شرمناک دن ہے میری ذاتی رائے ہے کہ اب ہمیں تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہوجانا چاہئے اور اپنی پارٹی لیڈر شپ سے یہ سفارش کروں گا، پاکستان کی یہ تاریخ ہے کہ ایک سیٹ اپ پر کیسے قلا بازی کھائی جاتی رہی ہے اور 64 اراکین 50 رہ جاتے ہیں میں مانتا ہوں کہ بڑا ستھرا کام ہوا ہے، ہمارے 14 اراکین نے ہمارے خلاف ووٹ دیئے، یہ ایوان اور حزب اختلاف کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ جو ووٹ مسترد ہوئے ہیں انھوں نے ایک خاص پیٹرن میں ووٹ ڈالے ہیں چاروں پر ایک ہی شکل میں دو دو مہریں لگائی گئی ہیں تاکہ جسے بھی بتانا تھا اس کوپیغام پہنچ جائے۔ میرا مشورہ ہے کہ اس طرح کی جمہوریت سے اچھا ہے کہ تمام ایوانوں سے مستعفی ہو جائیں اور کاریگری دکھانے والے خود یہ جمہوریت چلائیں۔

تحریک انصاف کے سینیٹر، وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ اپوزیشن کے کن اراکین نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ووٹ دیا ہے شاید میڈیا انھیں جانتا ہو لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اپوزیشن کا بیانیہ ختم ہو گیا ہے، جن لوگوں کے ووٹ مسترد ہوئے ہیں ۔میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جان بوجھ کر غلط کیا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے قطعاً کوئی لابنگ نہیں کی۔

معروف تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ آج سینیٹ میں تحریک کی ناکامی سے اپوزیشن کو بڑا دھچکا پہنچا ہے لیکن سینیٹ جس طرح سے وجود میں آتا ہے، جس طرح سے ووٹ دلوائے جاتے ہیں اور لوگ جس طرح سے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اس کی عکاسی ہوئی ہے سینیٹ کے الیکشن میں ووٹوں کی خریدو فروخت کی ہمیشہ شکایت سامنے آئی ہے اس سے پہلے پارٹی کے جو ٹکٹ دئیے جاتے ہیں اس کی بھی خریدو فروخت ہوتی ہے جب اس قسم کا ایوان بنے گا تو آج کا واقعہ کوئی سرپرائز نہیں۔ یہ ہونا چاہئے تھا، لوگوں کو اختیار ملنا چاہئے ان کو یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ جس طرح سے چاہیں ووٹ دیں اور پارٹی قیادت کے مفادات کے لئے ان کی اندھی تقلید نہ کریں لیکن انھیں ا علانیہ طور پر بھی پارٹی کی مخالفت کرنی چاہئے تھی۔ شاید اس کی ان میں سکت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا زیادہ نقصان اپوزیشن کا ہوا ہے۔

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ ارکان نے آج ووٹنگ میں آزادانہ فیصلہ کیا ہے جس کا حق انھیں ملک کے آئین اور قانون نے دیا ہے خفیہ بیلٹ کے تحت ارکان کو آزادی ہے کہ وہ جس طرح سے چاہیں اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ سیاسی جماعتوں کے لئے پیغام ہے کہ وہ اپنی سوچ تبدیل کریں ،اپنے گریبان میں جھانکیں اور یہ دیکھیں کہ ان کے اپنے داخلی مسائل کیا ہیں ابھی 15 ماہ پہلے انہی لوگوں سے کہا گیا کہ صادق سنجرانی کو ووٹ دیں آج ان کے اندر کیا تبدیلی آگئی ہے کہ وہ اسی پارٹی اور صوبے سے تعلق رکھتے ہیں ان کی کارکردگی کے بارے میں شکایت نہیں ۔اب ارکان سے کہا گیا ہے کہ صادق سنجرانی کے خلاف ووٹ دیں میرے خیال میں کچھ لوگوں نے اپنے ضمیر کے مطابق اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کیا ہے سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہئے کہ ان لوگوں نے ایسا کیوں کیااس کی کیا وجوہات ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف ایجی ٹیشن چلانا مشکل ہو جائے گا۔