لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد نے پاکستان میں جمہوریت کا اصل چہرہ سب کے سامنے لا کھڑا کیا۔ بظاہر 64 ووٹوں کی اکثریت کی دعویدار اپوزیشن عدم اعتماد کیلئے درکار 53 ووٹ بھی حاصل نہ کر سکی اور 36 ووٹوں کا حامل حکومتی اتحاد 45 تک پہنچ گیا جبکہ پانچ ووٹ مسترد ہونے کا عمل بھی بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔ سینیٹ میں ہونے والے کھیل کے اثرات یقیناً حکومت کے حق میں بہتر ہوں گے جبکہ اپوزیشن جماعتوں میں بد اعتمادی بڑھنے کے باعث آنے والے حالات میں وہ اب کسی بڑے اپ سیٹ کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔
اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ کھڑے کرنے والے وہ 14 اراکین کون تھے جن میں سے 9 نے براہ راست عدم اعتماد کے خلاف ووٹ دیا اور 5 نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اپنا ووٹ ضائع کر دیا۔ یہ وہ امر ہے جس پر بڑی سیاسی جماعتوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ اپنے سینیٹرز کے انتخاب کے وقت بڑی سیاسی جماعتیں کسی کی سیاسی جدوجہد اور اس کے نظریاتی کردار کو زیر غور لانے کی بجائے اپنی ذات سے وابستگی سمیت مال و دولت اور دیگر عوامل کو بروئے کار لاتی ہیں۔ ویسے تو گزشتہ دنوں سابق صدر آصف علی زرداری نے نیب کورٹ آمد پر کہا تھا کہ میں نے سنجرانی کو نہیں بنایا اور نہ میں ہٹا رہا ہوں۔ اس وقت ان کی بات کو اہمیت کا حامل نہیں سمجھا گیا تھا لیکن اب اس کا مطلب سمجھ آ رہا ہے کہ اس وقت بھی صادق سنجرانی پیپلز پارٹی کی چوائس نہیں تھے اور اب ان کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی ظاہر کر رہی ہے کہ انہیں بنانے والوں نے ہی بچایا ہے۔
جہاں تک مسترد کئے جانے والے پانچ ووٹوں کا سوال ہے تو اطلاعات ہیں کہ اپوزیشن نے اپنے اراکین اسمبلی سے عدم اعتماد کے حوالے سے ووٹ کے استعمال پر باقاعدہ حلف لیا تھا اور کہا تھا کہ وہ چیئر مین سینیٹ کو ووٹ نہیں دیں گے۔ نتائج بتا رہے ہیں کہ وہ اپنے حلف پر قائم رہے اور انہوں نے صادق سنجرانی کو ووٹ نہیں دیا۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے مقاصد کیا تھے تو ظاہر یہ ہو رہا ہے کہ ان کا اصل ٹارگٹ صادق سنجرانی نہیں بلکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تھی یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف براہ راست کوئی چارج شیٹ دیتی نظر نہیں آئی ان کا جو ٹارگٹ تھے انہوں نے کسی شور شرابے کے بغیر خاموش رہ کر اپنا کام کیا اور سینیٹ کے محاذ پر اپوزیشن کو ایک بڑے اپ سیٹ سے دو چار کر دیا۔
سب کچھ سامنے آ چکا ہے تو شہباز شریف بھی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے حقیقت حال سے نظر پھیرتے ہوئے یہ کہتے نظر آئے کہ یہ سب کچھ امیر ترین لوگوں کا کیا دھرا ہے۔ جبکہ دوسری جانب مریم نواز کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا مقابلہ میدان میں نہیں میدان سے باہر کیا جا سکتا ہے جو خفیہ نہیں ہوگا۔ جہاں تک شہباز شریف ، بلاول بھٹو اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں کا یہ کہنا ہے کہ وہ ضمیر فروشوں کا کھوج لگا کر انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کریں گے۔ یہ کیسے ممکن ہوگا فی الحال تو اس کا امکان نظر نہیں آتا، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وابستگی تبدیل کر کے چیئرمین سینیٹ کو ووٹ ڈالنے والے 9 اراکین سے کچھ وعدے ضرور ہوئے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں وہ بھی ہوں جن کی ٹرم آئندہ سال ختم ہونے والی ہے اور آنے والے وقت میں انہیں دوبارہ سینیٹر منتخب کرانے کا وعدہ ملا ہو۔
فی الحال یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب شاید ٹھہراؤ آ جائے بلکہ اپوزیشن لیڈر شپ کا شور بتا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں محاذ آرائی کی کیفیت میں اور اضافہ ہوگا کیونکہ حکومت اپوزیشن کے حوالے سے کسی قسم کی لچک کو تیار نہیں اور جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک ہوگا تو اس کا نقصان حکومت یا اپوزیشن کو نہیں ملک کو ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں اسلام آباد مارچ پر بھی غور ہوسکتا ہے فی الحال تو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس حوالے سے تحفظات ظاہر کرتی نظر آ رہی تھیں لیکن سینیٹ میں ہونے والی شکست کے بعد ہو سکتا ہے کہ اس آپشن پر اتفاق رائے ہو جائے۔ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ عوام کے اندر مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف پیدا شدہ ردعمل تھمنے والا نہیں، کیونکہ حقائق یہی ہیں کہ ایک جانب وزیراعظم عمران خان روٹی کی قیمت میں اضافہ کا نوٹس لیتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے طوفان میں اضافہ کر رہا ہے یہ رجحان حکومت کیلئے خطرناک ہے۔