لاہور: (ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت کی کشیدگی برطانیہ پہنچ گئی۔ پاکستانی نژاد کشمیری اور دیگر 15 اگست کو برطانیہ میں انڈین ہائی کمشنر کے باہر احتجاج کرنے جا رہے ہیں، وہاں پر برطانوی نژاد بھارتی بھی آ سکتے ہیں جس سے صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کو تعینات کرنے اور وادی میں لاک ڈاؤن نے برطانیہ میں موجود لاکھوں کشمیریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ سہیل ناستی شمالی لندن میں اپنے گھر میں موجود ہیں اور اپنے خاندان والوں سے رابطہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔
مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ اور موبائل سمیت لینڈ لائن سروس بند ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ وادی کا دنیا کیساتھ رابطہ منقطع ہے۔ سہیل ناستی کے پاس ایک اور آپشن ہے جس میں وہ سیٹلائٹ کے ذریعے وادی میں مقامی تھانے میں فون کرتے ہیں جس سے گھر والوں سے رابطہ ممکن ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں مقامی پولیس سٹیشن میں فون کیا تو پولیس حکام کی جانب سے کہا گیا وادی میں حالات معمول پر ہیں، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن لندن میں اطلاعات کچھ اور ہی مل رہی ہیں۔
سہیل ناستی برطانیہ میں ایک عالمی چیریٹی تنظیم چلاتے ہیں، انکی پیدائش مقبوضہ وادی میں ہوئی ہے، وہاں پر مودی سرکار کی طرف سے خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے جس سے ایک بڑا بحران سامنے آیا ہے۔ پوری وادی لاک ڈاؤن ہے۔ انٹر نیٹ، موبائل، لینڈ لائن کی سروس موجود نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ کرفیو کو ختم کیا جائے جس کے بعد میں اپنے خاندان سمیت دوستوں سے بات کروں، میں جلد وہاں جانا چاہتا ہوں، میرا خوبصورت کشمیر اس وقت اندھیرے میں ہے، میری دعا ہے کہ سب کچھ جلد نارمل ہو جائے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں فوج موجود ہونے کے باوجود صرف ایک ماہ کے اندر وہاں پچاس ہزار سے زائد فوجیوں کو بھیج دیا گیا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات معمول پر نہیں ہیں، عالمی میڈیا کی خبریں بھی اس کو عیاں کر رہی ہیں۔
لاکھوں کی تعداد میں کشمیری برطانیہ میں رہتے ہیں، صرف اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 11 لاکھ پاکستانی کشمیری انگلینڈ میں موجود ہیں۔ تاہم اس مقبوضہ کشمیر کے کتنے شہری وہاں موجود ہیں اس کے کوئی اعداد و شمار برطانوی حکام کے پاس موجود نہیں ہیں البتہ 14 لاکھ کے قریب بھارتی شہری برطانیہ میں رہتے ہیں۔
لندن میں موجود کشمیری ہیومن رائٹس کے رہنما راجہ سکندر خان کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی اور کشمیر پر خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کا مسئلہ بہت حساس ہے، ہم اس بات پر پریشان ہیں کہ مستقبل میں کہی یہ تنازعہ برطانیہ میں کشیدگی نہ بڑھا دے۔ ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم جو مرضی کریں تاہم اس کا اثر برطانوی معاشرے پر نہیں پڑنا چاہیے۔
اطلاعات ہیں کہ بھارت کے یوم آزادی پر پاکستانیوں سمیت کشمیریوں کی بڑی تعداد لندن میں انڈین ہائی کمشنر کے سامنے احتجاج کرنے جا رہی ہے۔ اسی طرح وہاں پر برطانوی نژاد بھارتی بھی وہاں موجود ہو سکتے ہیں جس سے صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
اُدھر پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدانوں نے بھی وزارت خارجہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم جانے کے بعد برطانیہ کو آگے آنا چاہیے اور امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
لارڈ نذیر کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے رہائشیوں میں بہت سارے معاملات پر گرم بحث ہوتی ہے، لیکن یقینی بنانا چاہتے ہیں اس کے اثرات اس معاشرے پر نہ پڑیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھیں بھارت مقبوضہ وادی میں شہریوں کے ساتھ کیا ظلم کر رہا ہے، اس مسئلے کا حل صرف پُر امن مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہاں پر موجود پاکستانی اور بھارتی اپنی حکومتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
بھارتی کرشنا بھان کا کہنا ہے کہ ہم یہاں اپنی بھارتی نژاد برطانوی شہریوں کی مدد کرتے ہیں، ہم یہ نہیں دیکھتے ان کا تعلق مقبوضہ وادی سے ہے یہاں ملک کے دیگر علاقوں سے ہے، میں مانتا ہوں کہ پاک بھارت کشیدگی کے اثرات برطانیہ پر بھی پڑ رہے ہیں، میں پر امید ہوں کہ معاملات جلد سنبھل جائینگے۔