اسلام آباد: (الماس حیدرنقوی) بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کشمیر اور کشمیریوں کا مستقبل ہمیشہ کیلئے بدلنے کا خوفناک منصوبہ ہے جس سے ہر کوئی متاثر ہوگا، بھارتی حکومت بالخصوص حکمران جماعت کا ایجنڈا کشمیر اور بھارت میں ہندوتوا مسلط کرنا ہے۔ بھارتی اقدام سے اگلے 30 سال میں جو تبدیلیاں ممکنہ طور پر رونما ہوسکتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1۔ آبادیاتی تبدیلی:
اسرائیل نے فلسطین میں جو کچھ کیا، بھارت بھی ریٹائرڈ فوجیوں کو کشمیر میں فلیٹوں کی الاٹمنٹ سے اس فارمولے پر عملدرآمد شروع کرے گا، بھارتی فوج کی بھاری نفری علاقے کا محاصرہ کرے گی، پنڈتوں کو کشمیر میں آکر مکانات تعمیر کرنے کو کہا جائے گا۔
2۔ اراضی سے بیدخلی:
کشمیریوں نے اپنے پنڈت بھائیوں سے جو اراضی خریدی ہے، اس کی فروخت کو تکلیف کے عالم میں شمار کیا جائے گا اور مسلمانوں کو یہ زمین سرکار کے مقرر کردہ نرخ پر حوالے کرنے پر مجبور کیا جائے گا، اسی طرح کشمیری پنڈتوں کو یہ اراضی دوبارہ خریدنے کیلئے لالچ دیا جائے یا انہیں مجبور کیا جائے گا، بھارتی حکومت اور اس کی ایجنسیاں کشمیری پنڈتوں کو ایک بار پھر قربانی کے بکروں کے طور پر استعمال کریں گی۔
3۔ شاملات پر حکومتی قبضہ:
محصولات کے قوانین تبدیل کئے جائیں گے، جو اراضی بشمول شاملات ریاست جموں و کشمیر کے ماتحت تھی، اس کا اختیار مرکزی حکومت کا ہوگا، وہ یہ زمین ہندوؤں کو منتقل کرے گی، متبادل کے طور پر کچھ سرمایہ کاروں کو اسے خریدنے پر مجبور کیا جائے گا اور سرمایہ کاروں کو ترغیب کے نام پر یہ زمین ان تاجروں کو دی جائے گی جو بی جے پی اور اتحادیوں کے قریب ہیں۔
4۔ مذہبی مقامات، قبرستانوں کو خطرہ:
اس کا مطلب ہے کہ قبرستانوں، ایف اے ٹی اور مذہبی مقامات کی زمین بھی خطرے میں پڑ جائے گی، کشمیریوں کو قبرستانوں میں میتوں کی تدفین کیلئے حکومت سے اجازت لینی پڑے گی، معلوم نہیں ایسا وقت آسکتا ہے جس میں ایک ہندوستان اور ایک قوم کا نعرہ لگائے بی جے پی اور اتحادی کہہ سکتے ہیں کہ ہم زمین نہیں دے سکتے، چلیں آپ مردہ کو جلا دیں۔
5۔ جے کے بینک سے قرض:
نئی حکومت کے تحت بینک ان لوگوں کی زمین لے گا جو کسی بھی وجوہ کی بنا پر قرض ادا کرنے میں ناکام ہیں، سب سے زیادہ متاثرہ ظاہر ہے کسان ، باغبان یا دوسرے کاروباری ہوں گے جنہوں نے زمین گروی رکھی ہوگی۔ اس سے بھارتی حکومت کو جموں اینڈ کشمیر بینک کے توسط سے زمین کو ہمیشہ کیلئے چھیننے کے حقوق حاصل ہوجائیں گے۔
6۔ رہائشی کا بحران:
غیر منقولہ جائیداد مہنگی ہونی شروع ہوجائے گی، بہت سارے لوگ مکان حاصل کرنے کے متحمل نہیں ہوں گے، اس طرح واحد مسلم اکثریتی ریاست بے گھر ہونے پر مجبور ہوگی، جہاں اب تک بے گھر آبادی کی شرح غیر معمولی حد تک کم ہے، اس سے مذہب، نسل اور رنگ کی تفریق کے بغیر تمام مقامی لوگ متاثر ہوں گے۔
7۔ روزگارسے محرومی:
اس کا اثر یہاں ہر ایک پر پڑے گا، مقامی ملازمتیں جموں و کشمیر کے لوگوں کیلئے مختص تھیں، وہ باہر کی ملازمتوں کیلئے بھی درخواست دے سکتے تھے۔ اب کشمیریوں کو باہر کے لوگوں سے مقابلہ کرنا ہے، جن کے پاس عام طور پر جعلی ڈگری ہوتی ہے، اس طرح بھارتی حکومت کشمیریوں کا ذریعہ معاش ہی چھین لے گی۔
8۔ سماجی جرائم کو پروان چڑھانا:
جموں و کشمیر میں جنسی زیادتی، قتل و غارت جیسے سماجی جرائم کم ہیں جن کے حوالے سے بھارت مشہور ہے، عام طور پر حکمران جماعت سے وابستہ افراد مجرم ہیں جن کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرائی جاسکتی، حالیہ تبدیلیوں کے بعد یہ جرائم اس خطے میں بھی معمول ہوں گے، کیا پتہ کس کی بیٹی، کس کی ماں، کس کا بھائی اور کس کا والد اس کا اگلا شکار بننے جا رہا ہے۔ جیسا کہ بیف کے شبہ میں والدین کے اکلوتے بیٹے اخلاق کا قتل کیا گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو مٹن تھا۔
9۔ منشیات کا پھیلاؤ:
بھارتی قابض پولیس، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں جموں و کشمیر کے ہر کونے میں منشیات فروشوں کو دھکیل کر نوجوان نسل کو برباد کر رہی ہے، یہ عمل دنیا کے انتہائی عسکری خطے میں ایک اور جنگی جرم ہے، بھارتی ایجنسیاں خطے میں بحالی مراکز بھی چلا رہی ہیں جس کا مقصد نوجوان نسل کو اپنے قابو میں کرنا ہے۔
10۔ مذہبی عدم برداشت:
آئندہ آنے والے سالوں کے دوران خطے میں مسلمانوں کیلئے زندگی تنگ کر دی جائے گی، گائے کے گوشت پر پابندی کی تیاریاں ہو رہی ہیں، لوگوں کو بتایا جائے گا کہ آپ کہاں عبادت کرسکتے ہیں اور کہاں نہیں ، برقعہ پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔
11۔ مقامی پولیس:
حکومت نے مقامی پولیس کا استعمال کیا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ سنگھی ہندوستانی برہمنوں سے باہر کسی پر اعتماد نہیں کرتے ہیں، انہیں سکھوں پر بھروسہ نہیں، یہاں تک کہ کشمیری پنڈتوں پر بھی نہیں، شیعوں سے لے کر سنیوں تک، سید علی شاہ گیلانی سے لے کر پولیس والا گیلانی تک ، منیر خان سے شاہ رخ خان تک مسلمانوں کو تو بھول جائیں۔ مقامی پولیس کو ممکنہ طور پر نکسل علاقوں میں منتقل کر دیا جائے گا کہ وہاں لڑو مرو، ان کی جگہ پولیس ان کی اپنی ہوگی جو ریپ، قتل اور دیگر جرائم کی ایف آئی آر کا اندراج نہیں کرے گی جیسا کہ انڈیا میں دیکھا جا رہا ہے۔
12۔ سیاستدانوں کا استعمال:
بھارتی حکومت عبداللہ خاندان کو ایک بار پھر استعمال کرے گی، کشمیریوں کا موقف ہے کہ انہوں نے 70 سال تک انہیں دھوکہ دیا کہ وہ آرٹیکل 370 کی حفاظت کریں گے، اب آئندہ 70 سال تک وہ یقین دہانی کراتے رہیں گے کہ اس آرٹیکل کو بحال کروایا جائے گا۔ مفتی خاندان اراضی اور ملازمتوں کے تحفظ کا یقین دلائے گا، بعض اوقات بھارت سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کرسی کیلئے جدوجہد کرے گی جموں و کشمیر کے لوگوں کیلئے نہیں مگر المیہ ہے کہ وہ سنگھی انڈینز کے ہاتھوں استعمال ہوں گے جو کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کیلئے کوشاں ہیں، اس کے بعد ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو کسی ہندو یا مسلمان کے ساتھ پارلیمنٹ میں کیا جاتا ہے جب وہ کسی کمزور کے حق میں ایک لفظ بھی بولنے کی جرات کرتے ہیں۔
13۔ انتخابی مہم کیلئے سرمایہ کاری:
کچھ سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری پر مجبور کیا جائے گا تاکہ آئندہ انتخابی مہم کیلئے کچھ ہاتھ لگے۔ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت دراصل مقبوضہ کشمیر کے انفراسٹرکچر یا لوگوں کی بہتری کیلئے سنجیدہ نہیں، بھارت نے جنگی جرائم کے طور پر مقبوضہ وادی میں جعلی ادویات اور جعلی جراثیم کش کیمیکلز ہی بھیجے ہیں تاکہ ہماری سیب کی معیشت کو نقصان پہنچایا جائے ، حتیٰ کہ بھارت نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیا جب سیاحتی اور سیب کا سیزن شروع ہونے والا تھا۔