لاہور: (تجزیہ :سلمان غنی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کی صورتحال بارے اپنی ایک ٹویٹ میں واضح کہا ہے کہ طالبان مان چکے ہیں کہ وہ ایک بڑی غلطی کر چکے ہیں وہ مذاکرات میں اپنے لئے اور پوزیشن بہتر بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے کابل دھماکہ کے ذریعہ اپنی پوزیشن خراب کی ہے۔ طالبان سے اتنا سخت سلوک کبھی نہیں ہوا، جتنی سختی سے میں نمٹ رہا ہوں۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان طالبان اور ان سے جاری مذاکرات کے حوالے سے ایک واضح پیغام ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ امریکا میں امریکا طالبان مذاکرات کے خلاف سرگرم اہم لابی اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکی ہے اور صدر ٹرمپ کی گفتگو میں ان کے خیالات نمایاں ہیں۔ لیکن جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعتا امریکا طالبان مذاکراتی عمل ڈیڈ لاک کا شکار ہو گیا یا اس مردہ گھوڑے میں جان پڑ سکتی ہے۔ افغانستان سے امریکن افواج کی واپسی کا عمل متاثر ہوگا اور نئی پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان کا کردار کیا ہے۔
افغانستان کے امن سے متعلق اب صورتحال نہایت گھمبیر ہو چکی ہے۔ پہلے طالبان اس سارے عمل سے دور تھے ۔ پاکستان، سعودی عرب اور قطر سمیت چین اور روس کی خصوصی کاوشوں سے طالبان اپنے سخت طرز عمل اور نقطہ نظر کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ بنے تھے اور مذاکرات میں ہونیوالی ہر لمحہ پیشرفت کو واشنگٹن انتظامیہ بڑی خندہ پیشانی سے قبول کر رہی تھی۔ افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے حلقے کابل میں محض ایک بم دھماکے کو ان مذاکرات کے ختم ہونے کی وجہ نہیں سمجھتے۔ ان حلقوں کے پیش نظر پہلے تو واشنگٹن میں افغان مسئلے پر جاری متوازی پلاننگ اور اپروچ تھی کیونکہ صدر ٹرمپ کے پیش نظر صرف امریکا کا اندرونی سیاسی ماحول ہے جسے انتخابات میں محض یہ خبر دینی تھی کہ ہم دنیا کے جھگڑوں سے واپس اپنے ملک میں توجہ دے رہے ہیں جبکہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کے پیش نظر ہمیشہ امریکی مفادات کا پوری دنیا میں تحفظ ہے۔
خطے میں دوسری بڑی اہم وجہ ایران ہے۔ ایران اور سعودی عرب ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کشیدگی کی جانب جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ دونوں ملکوں میں یمن اور عالم عرب میں دونوں کا پراکسی کردار ہے۔ امریکا آسام کے تنازع میں ایران کا بڑھتا ہوا فوجی کردار دیکھ چکا ہے اور بھگت چکا ہے۔ لہٰذا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نزدیک اس لمحے ایران کے ہمسایہ ملک افغانستان سے انخلا سٹریٹجک نقطہ نظر ایک فاش غلطی ہوگا۔ لگ یہی رہا ہے کہ امریکا میں ایران مخالف لابی اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رائے کو صدر ٹرمپ نے با دل نخواستہ قبول کیا ہے اور یہ راستہ مزید خون خرابے اور جنگ کا ہے اور اب اس کے فوری اثرات افغانستان کے اندر دیکھے بھی جا رہے ہیں اور محسوس بھی کئے جا رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا تازہ ٹویٹ بھی اس صورتحال کی سنگینی اور بگاڑ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں اب سمجھا جائے کہ مذاکرات ختم ہو گئے اور امن کا راستہ بند ہو چکا ہے ۔ بظاہر حالات خرابی کی جانب جا رہے ہیں۔ مگر جونہی صورتحال ایران اور سعودی عرب میں ٹھہراؤ پیدا کریگی امریکا کو پھر انخلا اور واپسی کی یاد ستائے گی اور پھر مذاکرات کا ٹوٹا ہوا سلسلہ بحال ہو جائیگا۔ اس صورتحال میں روس اور چین کا بھی کردار ہے۔ روس کو ایران سے دلچسپی ہے اور چین کے معاشی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا یہ دونوں بڑی قوتیں صورتحال کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگی کیونکہ ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی، پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کے ساتھ افغانستان میں بڑھتی ہوئی بد امنی چین کے معاشی مفادات کے خلاف ہے۔ افغانستان اور ایران کا ہمسایہ ملک پاکستان بھی اس صورتحال میں امن چاہتا ہے تو لازمی طور پر طالبان اور امریکا میں مذاکرات بحال ہونگے۔ البتہ مدت کا تعین کرنا بہت مشکل امر ہے۔
اب افغانستان سے امریکی افواج کا یکطرفہ انخلا کا امکان بہت حد تک ختم ہو چکا ہے۔ اب لگ یہی رہا ہے کہ ٹرمپ آئندہ صدارتی انتخابات کے بعد مذاکرات کا عمل شروع کرنے پر سوچیں گے ۔ یہ صورتحال بہر حال پاکستان پر اثر انداز ہوگی۔ ڈیورنڈ لائن پر بدامنی کے اثرات بڑھ جائینگے۔ افغانستان سے بھارتی پراکسی وار کا خطرہ ہمیں پتہ دیتا رہے گا۔ یہ صورتحال پاکستان سے تقاضا کر رہی ہے وہ چین اور روس سے رابطہ بڑھا کر دوبارہ مذاکرات کیلئے راہ ہموار کرے کیونکہ افغانستان میں امن بڑا فائدہ افغان عوام کے بعد پاکستان کا ہے۔