لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) بھارتی آرمی چیف کا یہ بیان کہ بالا کوٹ میں مبینہ دہشت گردی کا مرکز موجود ہے اور پانچ سو کے قریب دہشت گرد کشمیر میں داخلہ کیلئے تیار ہیں اس بھارتی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے جس کے تحت الٹا چور کو توال کو ڈانٹے کے مصداق پورے اترتے ہیں۔ بھارت کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو دفاعی محاذ پر رکھنے کی کوشش کی جائے اور مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور مسلسل کرفیو کے ذریعہ کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے مذموم عمل اور بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹائی جائے۔
اسی بناء پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا یہ الزام فلیگ آپریشن اور مہم جوئی کا بہانہ ہے اگر ایسی کوئی کوشش ہوئی تو خطہ کے امن کیلئے خطرناک ہوگا۔ 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد پیدا شدہ صورتحال، محاذ آرائی اور تناؤ کے عمل میں بھارت کی جانب سے الزام تراشی کا جواز اور مقاصد کیا ہیں ؟ بھارت اپنے جارحانہ طرز عمل سے پاکستان کو مرعوب کر سکے گا ؟ اور اگر جارحیت کی کوشش ہوتی ہے تو پھر پاکستان کا رسپانس کیا ہوگا ؟ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال کے بعد علاقائی تناؤ کو سنجیدگی سے لے رہی ہے ؟۔
جہاں تک 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد کی صورتحال کا تعلق ہے تو حقائق یہ ہیں کہ پاکستان دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ ایک تو بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے کشمیر جیسے متنازعہ علاقہ پر غاصبانہ قبضہ کیا اور دوسرا کشمیری عوام کو کرفیو کے عمل کے نتیجہ میں گھروں میں بند کر دیا گیا اور وہاں کوئی گلی، محلہ ایسا نہیں جہاں فوج تعینات نہ ہو۔ مسلسل کرفیو کے باعث مقبوضہ وادی انسانی المیہ سے دو چار ہے اور دنیا اس پر تشویش ظاہر کرتی نظر آ رہی ہے۔ نریندر مودی اور ان کی حکومت بین الاقوامی محاذ پر شرمندگی کے عمل سے دو چار ہے اور کم از کم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ان کے پاس کوئی واضح جواب نہیں لہٰذا اس نے مقبوضہ وادی کی انسانی صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے الزام تراشی کی روایتی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔ وہ کہاں تک اپنے مذموم عمل میں کامیاب رہے گا اس کا انحصار پاکستان کے طرز عمل پر ہے۔
ضروری بات یہ ہے کہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ بھارت جس حکمت عملی پر کار فرما ہے وہ سراسر آگ ہے اور اس کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے باعث کوئی صورتحال طاری ہوئی تو ذمہ دار بھارت ہوگا۔ بھارت کے مائنڈ سیٹ کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کیونکہ بھارت براہ راست جارحیت کے بجائے ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں بھی ملوث رہا ہے تا کہ انہیں عدم استحکام سے دو چار کیا جائے خصوصاً پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات اور اس میں براہ راست بھارتی خفیہ ا یجنسی را کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں اور اب نئی صورتحال میں بھارت کی جانب سے دہشت گردی اور تخریب کاری کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ اس کی کوشش ہر حوالے سے یہ ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹائے۔
دوسری جانب اس امر پر بھی توجہ مرکوز رکھنی چاہئے کہ عالمی سیاست کیلئے جو بساط بچھائی جا رہی ہے اس میں امریکا، بھارت اور اسرائیل ایک مشترکہ منصوبہ پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد بھارت کو علاقے کا چودھری بنانا ہے جس میں اصل رکاوٹ چین اور پاکستان ہیں اور اب پاکستان نشانے پر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سازشوں کا توڑ کیا جائے اور بھارت جیسے دشمن کے مقابلہ کیلئے ملک کے اندر اتحاد و یکجہتی کی ایسی فضا قائم کی جائے کہ دشمن کو پاکستان کے خلاف کچھ کرنے کیلئے سینکڑوں بار سوچنا پڑے۔ بھارت یہ مت بھولے کہ مقبوضہ وادی میں مسلسل کرفیو کے ذریعہ وہ کشمیریوں کی آواز کو دبا پائے گا۔ اسے پتہ ہے جب بھی کشمیریوں کو آزادانہ نقل و حرکت کا موقع ملا تو پھر بھارتی غاصب افواج کا جینا اجیرن ہو جائے گا، بھارت اسی صورتحال سے خوف کھائے ہوئے پاکستان کو الزام تراشی کی بنیاد پر دفاعی محاذ پر لانا چاہتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔